شرعی مسائل اوران کاحل قسط(۷)
سوال:
عمرکوکچھ شدت پسندلوگوں نےحملہ کرکےشہیدکردیا،اس درمیان اس نےمقابلےکی کوشش بھی کی پروہ ان سےجیت نہ سکااورجان کی بازی ہارگیاتوکیاعمرشہیدکہلائےگا؟
جواب:
عمومی طورپرہجومی تشددمیں مارتےوقت کیفیت کچھ اس طرح کی ہوتی ہےکہ لوگوں کی بھیڑامنڈآتی ہےفقط ایک شخص کومارنےکےلیے،ایسے وقت میں نفسیاتی اعتبارسےاکیلاشخص مرعوب ہوجاتاہےاورہمت ہاربیٹھتاہے، یادھاردارآلےسےحملہ کیاجاتاہے،جبکہ جس پرحملہ کیاجارہاہےاس کاہاتھ خالی رہتاہے،اگرمقابلےکےلیےکھڑابھی ہوتاہےتواسےمارکرفورابٹھادیاجاتاہے،یالٹادیاجاتاہے،لہٰذاہجومی تشددمیں ماراجانےوالامسلم شخص عمر شہیدحکمی کہلائےگا،البتہ جب ایسےحالات ہوں تواسلام اپنےدفاع کی اجازت دیتاہےاورملک کاقانون بھی اس کی اجازت فراہم کرتاہے،اس لیےحتی الامکان اپنادفاع کرناچاہیے،تاکہ ظالموں کی ہمتیں پست ہوں اوروہ بازآجائیں ـ
عن ابن عباس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم: من قتل دون مظلمة فهوشهيد (مسنداحمد رقم الحدیث ۲۷۷۵ / ۱ / ۵۰۱ بیروت)
هومن قتله اهل الحرب اوالبغي اوقطاع الطريق اووجدفي المعركة وبه اثراوقتله مسلم ظلماولم يجب بقتله دية (البحرالرائق / کتاب الجنائز / شہید/ ۲/ ۳۴۳ رشیدیہ)
وكذايكون شهيدالوقتله باغ اوحربي او قاطع طريق ولوتسببااوبغيرآلة جارحة فان مقتولهم شهيدبأي آلة قتلوه (شامي ۳/ ۱۶۰ زکریا)
سوال:
ایک آدمی نےاپنی بیوی کوتین طلاق دیدیا،لیکن عورت نےطلاق کےالفاظ نہیں سنے،عورت اپنےمیکےچلی گئ،میاں بیوی میں دیڑھ سال تک اَن بَن رہی،اہل خانہ کاماننایہ ہےکہ طلاق کےالفاظ عورت نےنہیں سنےہیں اس لیےطلاق واقع نہیں ہوئ،لیکن ادھرشوہرتین مرتبہ صریح الفاظ میں طلاق طلاق کہنےکااقرارکررہاہےتوکیاطلاق واقع ہوگی یانہیں، نیزعدت اس کی پوری ہوگئ یااب بھی باقی ہے؟اب اگردوبارہ اسی شوہرسےنکاح کرناچاہےتواس کےلیےکیاشکل ہوگی؟
جواب:
جب شوہرنےصریح لفظوں میں تین طلاق کہدیاہےاوروہ خوداس بات کااقراربھی کررہاہےتوخواہ عورت سنےیانہ سنےبہرحال طلاق واقع ہوگئ،اوراب چونکہ ڈیڑھ سال کاعرصہ گزرگیاتوعدت بھی پوری ہوچکی،البتہ عدت کےدوران پابندئ عدت کےنہ ہونےکی وجہ سےسخت گناہ ہوگااس کےلیےتوبہ واستغفارکرے،اب دوبارہ ایک ساتھ رہناچاہیں توشرعی طورپرجب تک کسی دوسرےمردسےنکاح اورطلاق وعدت کےبعدواپسی نہ ہوجائےاس وقت تک اس شوہراول کےلیےاس عورت سےنکاح کرناجائزنہیں ہوگاـ
الطلاق مرتان فامساك بمعرف اوتسريح باحسان ...فان طلقهافلاتحل له من بعدحتى تنكح زوجاغيره (البقرة ۲۲۹ / ۲۳۰)
عن عائشة رضي الله عنهاان رجلا طلق امرأته ثلاثافتزوجت فطلق فسأل النبي صلى الله عليه وسلم اتحل للأول؟قال لا حتى يذوق عسيلتهاكماذاق الاول (بخاري ۲ / ۷۹۱ کتاب الطلاق)
وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجاغيره نكاح صحيحا ويدخل بهاثم يطلقهاأويموت عنها(عالمگیریہ / کتاب الطلاق ۱ / ۶۷۳ رشیدیہ)(الھدایہ ۲/۳۹۹)
ومبدأالعدة بعدالطلاق وبعدالموت على الفوروتنقضي العدة وإن جهلت المرأة بهماأي بالطلاق والموت لانهااحل فلايشترط العلم بمضيه سواء اعترف بالطلاق اوانكر (شامي ۵ / ۲۰۲ زکریا)
سوال:
آج کل جورائج ہےگاؤں گاؤں ،گھرگھرمیں کسی کےانتقال پرقرآنی خوانی کاطریقہ، جس میں حفاظ کرام کوبلاکرایک ساتھ جمع کرکےگھرمیں قرآن پڑھایاجاتاہے،پھرکچھ ناشتہ دیاجاتاہے،اورکہیں کہیں تورقمیں بھی دی جاتی ہیں توکیاایساکرناجائزہے؟اوراس طرح کی قرآن خوانی کرنےکی شرعااجازت ہے؟
جواب:
مروجہ قرآن خوانی میں لوگ جمع ہوکرمیت کےایصال ثواب کےلیےقرآن کریم پڑھتےہیں اورپھرناشتہ وغیرہ کرایاجاتاہےاورکہیں کہیں تورقمیں بھی دی جاتی ہیں،حالاں کہ یہ قرآن مجیدپڑھنےپراجرت لیناہوااورقرآن پاک کوکسب معاش کاذریعہ بناناپایاگیا،لہٰذابہت سےغیرشرعی امورکےپائےجانےکی وجہ سےمروجہ قرآن خوانی کی اجازت نہیں ہےـ
" فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون -(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار ۶/ ۵۶ )
Post a Comment