ہندوستان کی آزادی میں اردوقلم کاروں کاحصہ - Siddiqahmad.com

ہندوستان کی آزادی میں اردوقلم کاروں کاحصہ



ہندوستان کی آزادی میں اردوقلم کاروں کاحصہ

ازقلم:  مفتی صدیق احمدبن مفتی شفیق الرحمن  قاسمی
موبائل نمبر:8000109710
  قدرت کا ازل ہی سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ اس نے کسی بھی محنت کرنے والے کی کَدّو کاوش کو ضائع نہیں کیا ـ۔نیز یہ مقولہ بھی مشہور ہے کہ جو کوشش کرتا ہے پھل پاتا ہے، ان ہی چیزوں کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ہمارے علمائےکرام اوربرادرانِ وطن نے ۲۰۰ سال تک انگریزوں سے نبرد آزما ہو کر بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں اورملک کو انگریزوں کے چنگل سے چھڑا کر غلامی کی زنجیرکو اکھاڑ پھیکا؛بالآخر ملک کو آزاد کراکے ہی رہے،اوراس کام میں اردوقلم کاروں نےبھی خوب قربانیاں پیش کی،اسی وجہ سے ارد و زبان اورہندوستان کی آزادی کااَٹوٹ رشتہ ہے،چونکہ اردوکےقلم کارشعریہ کلام، نثریہ کلام اخبارات میں شائع کرکےحقائق لوگوں کے سامنے لاتے رہے،جس کی پاداش میںیکےبعددیگرےکئی لوگوں کوشہیدکردیاگیا،کئی لوگ جیلوں کی نذرہوگئے؛لیکن اظہاررائےکایہ سلسلہ قلم کاروں نےبڑے زوروشورسےجاری رکھااوراسی کےنتیجےمیں خط وکتابت اوراحساسِ آزادی کی وجہ سےجنگ آزادی وجومیں آئی ،جس کاسارادارومداراِن ہی قلم کاروں پررہا،جن کی تحریریں مشعلِ راہ ثابت ہوئیں۔
  آپ حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ 15اگست 1947 ء میں ہندوستان آزاد ہوا، اور 26 جنوری  1950 ء میں جمہوریہ قانون بنا۔
  عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ انگریزوں کے خلاف مُسَلَّح  جِدُّوجُہد کا آغاز 1857 ء سے ہوا۔ لیکن یہ ایک غلط بات ہے جو جان بوجھ کر عام کی گئی ہے، تاکہ 100برس قبل جس تحریک کا آغاز ہوا،اورجس کے نتیجے میں بنگال میں سراج الدولہ نے 1757ء میں مجنوں شاہ نے 1776ء  میں حیدر علی نے1780ء میں ان کے بیٹے ٹیپوسلطان نے1767 ء میں مولوی شریعت اللہ نے1791ء میں انکے بیٹےدادو میاں نے1812 ء میں سید احمد شہید نےاور 1831 ء میں انگریزوں کے خلاف جو باقاعدہ جنگیں لڑی ہیں، وہ سب تاریخ غبار میں ڈوب جائے،حالانکہ وہ سب مسلمان انگریزوں کے خلاف لڑتے رہے، انگریز سارے ملک کے خزانے کو لوٹ کر اپنے ملک لے جاتے رہے، مسلمان لڑائی کرتے رہے، حتّٰی کہ 10 مئی 1857 ء کو تحریک آزادی کا دوسرا دور شروع ہوا۔ سراج الدولہ نےپلاسی کے میدان میں جنگ کی اور1764 ء میں بہار اور بنگال پر قابض ہو گئےـ۔ٹیپوسلطان نے 1783 ء میں پہلی جنگ کی، انگریزوں کو شکست ہوئی، اسی طرح 1784 ء میں یہ جنگ ختم ہوئی، یہ میسور کی دوسری جنگ کہلاتی ہے،1792 ء  میں انگریزوں نے انتقام لینے کے لئے جنگ کی، 1792 ء میں ہی حملہ کیا۔
  اس کےبعدایک زمانہ ایساآیاکہ انگریزوں کے ساتھ دیگر ممالک ایران، افغانستان، سے تعلق رکھنے والے حکمران ہندوستان کو اپنے زیرِ َنگیں کرنے کے لیےحملہ آور ہوئے،  1738ءمیں نادر شاہ نے دہلی کو تباہ و برباد کر دیا1757 ء میں احمد شاہ ابدالی نے دو ماہ تک مسلسل اس شہر کو یرغَمال بنائے رکھا، دوسری طرف انگریز فوجیں مرہٹوں سے ٹکرائی،  ابھی پوری طرح دہلی کا اقتدار حاصل نہیں ہوا تھا کہ امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے 1762 ء میں مستقبل کا ادراک کر لیا، اور دہلی پر قبضہ سے 50برس قبل اپنی جِدُّوجُہد کا آغاز کر دیا، آپ پر جان لیوا حملے کیے گئے، لیکن آپ ڈٹے رہے، تحریر و تقریر میں اپنا نظریہ پیش کیا، اور فرمایاکہ ظلم و بربریت انسان کے لیے کینسر کی حیثیت رکھتا ہے، اس کو ختم کیا جائے، افسوس کے شاہ صاحب 1765 ءمیں وفات پاگئے، اور ان کا خواب تشنئہ تعبیر رہ گیا، تاہم اپنی کتابوں فکروں کی ذریعے نَصْبُ العین متعین کر چکے تھے، لہٰذا ان کے چھوڑے ہوئے کام کو پورا کرنے کے لیےشاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حوصلہ دکھایا، حالانکہ وہ 17 سال کے تھے، اس میں ان کے تینوں بھائی شاہ عبدالقادر، شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالغنی صاحب ان کے علاوہ عبدالحی،  شاہ اسماعیل شہید، سید احمد شہید، مفتی الہی بخش کاندھلوی نے ان کا ساتھ دیا ، 1803 ء میں لارڈلیک نے شاہ عالم کے ساتھ  ایک معاہدہ کیا، اور دہلی پر قابض ہوگیا، یہ فارمولہ اس لیے اختیار کیا تھا کہ لوگ حکومت کے خاتمے سے مایوسی کے شکار ہوجائیں، مگر شاہ عبدالعزیز صاحب اس کو محسوس کر رہے تھے، لہٰذا جرات مندانہ فتویٰ جاری کردیاـ۔
   اس فتوے کا نتیجہ تھا کہ آپ کی تحریک کے سپاہی سید احمد شہید نے گوالیار کے مہاراجہ کو لکھا کہ یہ بعید الوطن تاجراور متاع فروش بادشاہ بنے بیٹھے ہیں، واقعی عار کی بات تھی، لہٰذا مہاراجہ نے کہا کہ ہمیں جنگ پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں، اور اپنے پیرومرشد شاہ ولی اللہ کے حکم پر امیر علی خان سنبھلی کے پاس بھی تشریف لے گئے، جو اس وقت راؤہلکر کے ساتھ مل کرانگریزی فوجوں پر شَبْ خوں مار رہا تھا،  1815 ء تک یہ اشتراک کامیابی کے ساتھ جاری رہا، لیکن انگریز نے امیر علی خان کو خواب کا خط دے کر ہتھیار رکھنے پر مجبور کردیا، حضرت سید احمد شہید واپس دہلی واپس ہوگئے 1818 ء  تک تمام چھوٹے بڑے علاقے اور ریاستی انگریزوں کے زیر اقتدارآگے۔
پھرایک زمانےکےبعدشاہ عبدالعزیز صاحب نے اپنے پیرانہ سالی میں ایک نیا لائحۂ عمل تیار کیا، دو کمیٹیاں بنائی، جس میں سے ایک کا اقتدار اپنے ہاتھ میں رکھا، اس میں شاہ محمد اسحاق، شاہ محمد یعقوب صاحب دہلوی، مفتی رشید الدین دہلوی، مفتی صدر الدین آزردہ، مولانا حسن علی لکھنؤی، مولانا حسین احمد ملیح آبادی، مولانا شاہ عبدالغنی صاحب جیسے لوگ شامل تھے،یہ حضرات سلسلہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے طے کردہ خطوط کے مطابق چلا کرمنبرو محراب کی زینت بنے؛ 1912 ء میں تحریک ِریشمی رومال کی ابتدا ہوئی، جس کے بانی فرزندِ اول دارالعلوم دیوبندکے شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندی تھے، مولانا عبید اللہ سندھی نےاس میں اہم رُوْل ادا کیا، مولانا عبیداللہ سندھی نے کابل سے ریشمی رومال پر جو راز دارانہ خطوط شیخ الہند کو مکہ مکرمہ روانہ کیا، برطانیہ کے لوگوں نے ان خطوط کو پکڑ لیا؛اب آپ حضرات کوان تفصیلی حالات سےآزادی ہندمیں خط وکتابت اورقلم کاری کےاہم رول کااندازہ ہوگیاہوگا۔
  ہندوستان کی جنگ آزادی میں جہاں ہرمذہب وملت اورطبقے کےلوگ شامل ہوئے ہیں وہیں اردوکے قلم کاروں نے بھی اپنی شعری ونثری تحریروں اوراخبارورسائل کےذریعے حقائق کوسامنے لانے اورلوگوں کوآزادی کےتئیں بیدارکرنےمیں ایساکارنامہ انجام دیاہےکہ جس کوتاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی،چونکہ اس زمانےمیں"سارے جہاں سےاچھاہندوستاں ہمارا"(علامہ اقبال) نے" انقلاب زندہ باد " کا نعرہ (مولانا حسرت موہانی )نے دیا؛"گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے" ( ٹیپو سلطان)نے، "جاکے لندن لڑے گی تیغ ہندوستان کی "( بہادر شاہ ظفر)نے، "میں اپنی جھانسی نہیں دونگی" ( رانی لکشمی بائی)نے ، اور "تن فروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے؛دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے" ( بسمل عظیم آبادی)نےدیا؛ آزادی کا جذبہ پیدا  کرنے والے شعراء ،حسرت موہانی، جوش ملیح آبادی، بُرْج نارین چَکْبَسْت، مجاز لکھنوی وغیرہ ہیں۔اوراس طرح کے کئ سارے انقلابی نعرے،قومی حمیت کوبیدارکرنےوالے گیت اورجملے ان ہی قلم کاروں کی دَین ہے۔
  چنانچہ ان ہی قلم کاروں کی اس طرح کی تحریروں کی وجہ سے اردوزبان کےکئی اخباروں پرعارضی پابندی لگادی گئی، اورنامورادیبوں کوپابندِسلاسل کیاگیا،لیکن قلم کاروں نےضمیرفروشی نہیں کی،بلکہ آخری حدتک اپنی طاقت اورصلاحیت کےمطابق آزادی کی لڑائی لڑتےرہے،اوربالآخرآزادی حاصل کرکےہی دم لیا۔
  قلم کاروں کی فہرست میں توبےشمارلوگ ہیں،جنہوں نےچھوٹی بڑی تحریری کوشش سے اس کی داغ بیل ڈالی اورآزادی کی لہردوڑائی،لیکن جن لوگوں کی قربانیاںمسلسل اوربےشماررہی ہیں ان میں نمایاں نام مولاناابوالکلام آزاد ؒ ،بہادرشاہ ظفرؒ،حسرت علی موہانی،مولوی محمدباقراورمولانامحمودالحسنؒ،حالی،سرسیداحمدخاں ،ؒنذیراحمد ،علامہ اقبال، پریم چند،شاہ عبدالعزیز دہلوی ؒ ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ  ٹیپوسلطان اوررانی لکشمی بائی کابھی ہے،ان تمام حضرات نےگویااپنی تحریر وتقریرکامقصدآزادی کوہی بنالیاتھا۔
  مولاناابوالکلام آزاد نے جب ہندوستان کی نوعیت دیکھی ، زمینی صورتِ حال کاجائزہ لیااوریہاں کی سیاست پرگہری نظرڈالی تویہ محسوس ہواکہ خوابِ گراں سے جگانے اور ان میں انقلابی جذبہ بیدارکرنے کےلیےایک اخبار جاری کرناضروری ہے،اسی مقصد کے تحت انہوں نے جون ۱۹۱۲ۓعیسوی میں ہفت روزہ "الھلال"جاری کیا،ایک سال کی مدت میں ہی یہ اتنامقبول ہوگیاکہ اس کی اشاعت ۲۶ ہزار فی صفحہ تک پہنچ گئی۔
  اردوصحافت کی تاریخ میں یہ پہلاہفت روزہ تھاجس کی اشاعت اتنی زیادہ ہورہی تھی،لوگوں میں الھلال کی مقبولیت تھی اوراس کے سیاسی مضامین سے حکومت خائف بھی خائف تھی،اسی وجہ سے جلد ہی ۱۸ ستمبر۱۹۱۳ عیسوی میں الھلال کی ۲ ہزار کی ضمانت ضبط کرلی گئی،لیکن مولانا نے ہمت نہیں ہاری ،بلکہ اب ' ۶ ماہ بعد "البلاغ"پریس قائم کیا،مولاناکوان کے وطن کلکتہ سے جلاوطن کردیا گیا ، ۸جولائی ۱۹۱۶ عیسوی کوحکومت نے مولانا کوسیاسی مضامین کی اشاعت کے پاداش میں نظربند کردیا۔
  اردوقلم کاروں اورادب نے ہرزمانے میں انفرادی اوراجتماعی زندگی کی بےچینیوں کی بھی آئینہ داری کی اورہرزمانےمیں ایک بہترزندگی کےخواب دکھائے،نیز ساتھ ہی ساتھ خوابوں کےنہ ٹوٹنے کاکرب بھی جس شدت کےساتھ اردوشعر وادب میں پایاجاتاہےوہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔
  آزادی کا دل کش خواب دیکھنے والے شاعروں اورادیبوں نے جب آزادی کاسامناکیاتوانہوں نےملک ملک تقسیم ہوتاہواانسانیت کالہوپنپتاہوااوراپنے ہم وطنوں کوبے وطن ہوتاہوابھی دیکھا،شکستِ خواب کایہ منظرآزادی کے بعدظہور میں آنے والے سارے ادب اورتحریروںمیں بکھرانظرآتاہے،اورزخم لگنے کےبعدسب سے زیادہ دل دہلادینے والی ہنسی وہ تھی جوٹوبہ ٹیک سنگھ بن کر سعادت حسن منٹوکےلبوں پر ابھر آئی۔
خلاصۂ کلام یہ ہےکہ ۱۸۵۷عیسوی کی پہلی جنگ آزادی سے لےکر ۱۹۴۷ عیسوی میںحصول آزادی تک اردوقلم کاروں نے صحافت ،سیاسی مضامین، اشعار،قطعے اورباعیات کے ذریعے جِدُّ وجُہْدِآزادی اورقومی اتحادکی تحریک میں جونمایاں رول اداکیاوہ تاریخ کاروشن باب ہے۔یہ قلم کار ہی ہیں جنہوں نےبرطانوی سامراج کےظلم وتشددکاسامناکیااوراپنی تحریری کارناموں کی وجہ سے پابند ِسلاسل ہوئے،انہوں نےفقط قیدوبندکی صعوبتیں ہی برداشت نہیں کی،بلکہ بہت کچھ جانی ومالی قربانیاں بھی دی،لیکن انگریزوں کاظلم و تشدد اُن کی آزادی کےجِدُّوجُہْدکودبانہ سکا،بالآخراپنی تحریروں سےلوگوں کوتوجہ دلاکرغلامی سےآزادی دلانےکےبعدہی دم لیا،جس کی وجہ سےآج بھی تاریخ اُن کواچھے ناموں سےیادکرتی ہےاورآئندہ بھی اُنہیں کبھی فراموش نہیں کرےگی۔

کوئی تبصرے نہیں