محمدبن قاسم کی زندگی سےانوکھی نصیحت
محمد بن قاسم کی زندگی سے انوکھی نصیحت
از: مفتی صدیق احمد بن مفتی شفیق الرحمٰن قاسمی
محمد بن قاسم تاریخ میں ایک روح کی حیثیت رکھتے ہیں ، انہوں نے ہندوستان کو فتح کیا اور اس وقت ہندوستان سے قبل کئی ملکوں کو فتح کر چکے تھے، ان کا عظیم کردار اور بڑا حصہ ہےـ ہندوستان تک اسلام کے آنے میں، لیکن یہ سب ایسے ہی نہیں ہوا ،انہوں نے ایسے ہی اتنا بڑا کارنامہ انجام نہیں دے دیا، اگر آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ ان کے والدین ان کے رفقاء تہجد کے پابند عبادت گزار صالح متقی اور پرہیز گار تھے، اللہ نے انہیں کامیاب کیا ہر میدان میں ہر جگہ، حالاں کہ وہ ایک نو عمر جوان تھے، لیکن ان کے حوصلے ،ان کے جذبے ،ان کی شجاعت اور بہادری ایسی تھی کہ اگر پہاڑوں سے ٹکرا جائے تو ان کو ریزہ ریزہ کرکے رکھ دے، اگر چٹانوں سے ٹکرائے تو اس کو غبار بنا کر اڑا دے، اگر کسی کے قلب پر حملہ آور ہو تو اس کو ایسا گرویدہ بنا دے کہ وہ جان دینے پر مجبور ہوجائے، اور اخلاق فاضلہ کا یہ عالم تھا کہ خود ہی تیمارداری کرکے خود مرہم پٹی کرتے، اس میں ذرا برابربھی جھجھک محسوس نہیں کرتے، صبر کا یہ عالم تھا کہ اپنے والدین اعزہ واقارب اور بیوی کو بھی خیر آباد کہ کر میدان جنگ کا رخ کرلیا ، کہ جب تک ہندوستان کو فتح نہیں کرلوں چین کی نیند نہ سوؤنگا،اور نہ ہی فتح کیے بغیر واپس آؤں گاـ
چنانچہ ان کے حوصلے نے کام کر دیکھا یا، کہ بڑے سے بڑے دشمن پر بھی انہوں نے ذرا سی دیر میں قبضہ کرکے اپنا گرویدہ اور ایسا تابع بنا کر چھوڑا کہ لوگ ان کے پیچھے چلنے اوران کا ساتھ دینے پر مجبور ہوگئے، اورہر ایک کے دل میں ان کے لئے جگہ بنتی چلی گئی ،چونکہ ان کی چاہت لوگوں کو غلامی کی زنجیر سے نکال کر، ظلم کی دلدل سے کھینچ کر ،آزادی اور انصاف کی زندگی دینا تھا ـ
شاعر کا قول ہے کہ :
اُٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
معزز ناظرین !آپ جانتے ہیں کہ اس میں کن کن چیزوں نے اتنا بڑا کارنامہ انجام دینے پر ابھارا ؟اور کون کونسی چیزیں معین و مددگار ثابت ہوئ؟ان کی تربیت ایسی کی گئ تھی کہ ان کا مزاج اسلامی رنگ میں ڈھلا ہوا تھا، اور بچپن ہی سے تہجد گذار، عزم وحوصلہ والے، بہادری اور شہادت کا جذبہ، شجاعت و بہادری لیے ہوئے گھوم رہے تھے، اس کے ساتھ ساتھ ماں کی دعابھی تھی ـ
نیز تعلق مع اللہ اور بلند ہمت، بڑے حوصلے کے مالک تھے، ایثار و ہمدردی کا جذبہ ان میں رچ بس گیا تھا، تب جاکر اللہ نے یہ مقام دیا کہ لوگ آج انہیں اچھے نام سے یاد کرتے ہیں، آخر میں انہوں نے اپنی جان کو خدا کے نام پر قربان کردیاـ
لیکن جاتے جاتے دنیا کو یہ سبق دے گئے کہ اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں، تو سب سے پہلے تعلق مع اللہ قائم کیجیے، اس کے ساتھ ساتھ بلند حوصلہ رکھیے، اور دین و شریعت اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے سخت سے سخت ترین حالات کو جھیل کر مقابلہ کرنے کو اپنی سعادت سمجھنے میں ذرہ برابر بھی گریز نہ کیجیے، اور کسی بھی قیمت پر ایمان کا سودا نہ کیجیے،کیونکہ استقامت کے ساتھ اپنے عزائم وارادے کو شرمندئہ تعبیر کرنے میں لگے رہنا،جرأت وبہادری سے اس طرح کام کرنا کہ اگر پہاڑ بھی تمھارے حوصلے عزائم وارادے سے مقابلہ آرائی کرے تو وہ بھی غبار بن کر اُڑ جائے اورآپ اپنا کام کرتے ہوئے آگے نکل جاؤ ،اپنی استطاعت کے مطابق کام کیجیے، اللہ آپکی مدد کرے گا ،اور اگر مظلوموں کو ان کا حق دلانے، ہمدردی کرنے میں تمہیں جان کی بازی لگانی پڑے تب بھی اس سے دریغ نہ کیجیے، بلکہ اس مبارک سعادت سے ہمکنار ہو جا ئیے، اور بڑے بڑے مصائب درپیش ہو تو صبر و تحمل سے کام لیجیےـ
آخر میں یہ بھی سبق دے گئے کہ
یاد رکھو !اصل زندگی تو آخرت ہی کی زندگی ہے ،یہ تو مختصر وقفہ ہے جس کو زوال ہے بقا حاصل نہیں، اسلیے اس کو اچھے سے طے کرکے اپنی اگلی منزل کے لیے ذخیرہ اندوزی کر لیجیے، وہی کام آئے گا ،غفلت کا پردہ ہٹا کر اب بھی آنکھیں کھولیے، اور آخرت کی تیاری اور فکر میں لگ جائیے، ورنہ انگشت بدنداں ہو کر کف افسوس ملنا پڑے گا ،لیکن اس وقت افسوس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگاـ
مسلمانوں اب تو جاگ جاؤ! جاگ جاؤ !جاگ جاؤ!
شریعت پر پورے طور پر عمل پیرا ہو جاؤ ، کامیابی اور نصرت خداوندی تمہارے قدم چومے گی ـ ان شاء اللہ ـ
Post a Comment