شرعی مسائل اوران کاحل (۵)
سوال:
کسی نےمنت مانی کہ اگراس کافلاں کام ہوجائےگاتودس ہزارمرتبہ درودشریف پڑھےگاتواس کےلیےکام پوراہونےپرمنت پوری کرناضروری ہے،لیکن اگرکسی نےمنت مانی کہ وہ کام کےپوراہونےپرسبحان اللہ یالاحول ولاقوة الاباللہ دس ہزارمرتبہ پڑھےگاتوایسی صورت میں اس منت کاپوراکرناضروری نہیں ہےاس طرح کا مسئلہ بہشتی زیورمیں لکھاہے،ان دونوں میں فرق کی وجہ کیاہے؟
جواب:
آپ نےجومسئلہ بہشتی زیورکاپیش کیاہے،جس میں درودشریف کی نذراورتسبیحات کی نذرکےدرمیان فرق کوبیان کیاگیاہے،اس کی وجہ یہ ہےکہ نذرمنعقدایسی چیزکی ہی ہوتی ہےجس کی جنس سےشرعاکوئ واجب یافرض عبادت موجودہو،لہٰذامذکورہ صورت میں درودشریف کی جنس سےواجب موجودہے،بایں معنی کہ یاایھاالذین آمنوا،صلواعلیہ وسلمواتسلیمااس آیت کی وجہ سےزندگی میں ایک مرتبہ درودشریف پڑھناواجب ہے،اس وجہ سےدرودشریف کی نذرمنعقداوردرست ہوجائےگی،رہی بات سبحان اللہ کی تواس کی جنس سےکوئ واجب موجودنہیں ہے،بریں بناسبحان اللہ کی نذرماننےسےنذرہی منعقدنہیں ہوگی ـ
ولونذر التسبيحات دبرالصلاة لم يلزمه قال الشامي لعل مراده التسبيح والتحميدوالتكبيرثلاثاوثلاثين في كل ....وفيه اشارة أنه ليس من جنسهاواجب ولافرض (شامي ۵/ ۵۲۰ زکریا)
ولونذران يصلي على النبي كل يوم كذا.. قال الشامي لزمه لأن من جنسه فرضاوهوالصلاة عليه مرة واحدة في العمر (شامي ۵/ ۲۱ /۵۲۰)
سوال:
ایک آدمی ایسی جگہ پررہتاہےجہاں پراسےغسل کرنےمیں دشواری ہوتی ہے،کپڑابدلنےمیں مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے،اگرایسےآدمی کواحتلام ہوجائےتووہ اپنےکپڑےکےفقط ان جگہوں کوتین مرتبہ دھولےجہاں ناپاکی لگی ہےاورغسل کرکےوہی کپڑاپہن کرنمازاداکرلےتواس کی نمازدرست ہوجائےگی یانہیں؟
جواب:
کسی شخص کواحتلام ہوجائےتواس کےلیےغسل کرناضروری ہے،بغیرغسل کےوہ عبادت خداوندی، تلاوت کلام پاک، نمازوغیرہ ادانہیں کرسکتاہے،لہٰذاایساشخص غسل کرنےکےبعدپاک ہوجائےگا،رہی بات کپڑےپرناپاکی کی توجتنےحصےپرمنی لگی ہوئ ہےفقط اتنےحصےکوتین مرتبہ اس طرح دھولیاجائےکہ ہرمرتبہ نچوڑکرپوراپانی نکال لےتب بھی کافی ہوجائےگا،اوراس کپڑےکوپہن کرنمازدرست ہوجائےگی،پوراکپڑادھوناضروری نہیں ہے،عوام میں جویہ بات مشہورہےکہ احتلام کی وجہ سےپوراکپڑاناپاک ہوجاتاہے،یہ غلط ہے،البتہ احتیاط کاتقاضایہ ہےکہ کپڑابدل لے،لیکن اگرسفرمیں یاایسی جگہ ہوجہاں پرکپڑابدلنادشوارہوتوفقط کپڑےکےناپاک حصےکواچھےسےتین مرتبہ دھولیاجائےتب بھی کپڑاپاک ہوجائےگاـ
اسباب الغسل ثلاثة الجنابة والحيض والنفاس وفي مختارالفتاوى المرادبقوله والحيض والنفاس انقطاعهماـ (تاتارخانية ۱/ ۲۷۸ زکریا)
إلا اذانام مضطجعااو تيقن انه مني اوتذكرحلمافعليه الغسل والناس عنه غافلون (شامي ۱/ ۳۰۲ زکریا)
والمني نجس يجب غسل رطبه فإذاجف على الثوب أجزأه فيه الفرك(المختصرالقدوري / باب الانجاس ۳۷)
الثوب النجس اذا غسل ثلاثاوعصرفي كل مرة ثم تقاطرمنه قطرة فاصاب شيئاقال ينظران عصرفي المرة الثالثة عصرابالغافيه حتى صاربحال لوعصرلم يسل منه الماء فالثوب طاهر واليدطاهر وماتقاطرطاهروان لم يبالغ في العصر بالمرة الثالثة وكان الثوب بحال لوعصر سال فالثوب نجس واليدنجس وماتقاطرنجس (المحيط البرهاني ۱ / ۳۷۹ )
سوال:
ملک کی حفاظت میں کوئ انتقال کرجائےتواس کےلیےمون رکھتےہیں،جس کاطریقہ یہ ہوتاہےکہ کچھ وقت خاموش ہوجاتےہیں اوراپنی پوری توجہ میت کی طرف کرتےہیں،توکیاشریعت میں اس کی گنجائش ہے؟
جواب:
کسی شخص کےانتقال پراس کےلیےمون رکھنایعنی اس کی روح کی سلامتی اورسکون کےلیےکچھ دیرخاموش رہنادراصل غیرمسلموں کاطریقہ ہےجس کی شریعت میں کوئ اصل نہیں ہے،لہٰذاغیروں سےمشابہت اوردیگرمنہیات شرعیہ کی وجہ سےمون رکھنےکی قطعااجازت نہیں ہے،ہاں البتہ تعزیت کرنامسنون ومستحب ہےـ
ویجوز عیادۃ الذمي، کذا في التبیین(الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الرابع عشر ۵؍۳۴۸)
عن ابن عمر قال قال رسول اﷲ ﷺ من تشبہ بقوم فھو منھم۔ (سنن ابی داؤد، ۲۰۳/۲)
عن ابی موسی قال المرأ مع من احب(صحیح ابن حبان، ۲۷۵/۱)
کتبہ مفتی صدیق احمدبن مفتی شفیق الرحمن قاسمی
Post a Comment