آہ ملت کاایک اورستارہ غروب ہوگیا - Siddiqahmad.com

آہ ملت کاایک اورستارہ غروب ہوگیا


آہ ملت کاایک اور ستارہ غروب ہوگیا

از :مفتی صدیق احمدبن مفتی شفیق الرحمن قاسمی 

سر زمین ہند کی معروف شخصیت پار لیمینٹ کے اہم رکن جمیعة علمائے ہند کے سابق جنرل سیکریٹری  اور دارالعلوم دیوبند کی شوری کے رکن نمونئہ اسلاف حضرت مولنا اسرارالحق صاحب ایک سیاسی وملی قائد ہونے کے ساتھ ساتھ علمی اور دینی حلقوں نیز ملی اور سماجی طبقوں میں بےحد مقبول تھے حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھتے تھے اور کثرت مشغولیت کے باوجود گاہے بگاہے آپکے قلم سے مختلف مفید مضامین اردو اخبارات میں آتے رہے ہیں آپ  متواضع اعلی اخلاق اور بے پناہ سادگی کے حامل تھے آپ امت کے درد کومحسوس کرکے انکے زخم پر مرہم رکھنے اورانکے سر پر ہاتھ پھیرنے والوں میں سے تھے آپ نے اُفتادہ لوگوں اور پسماندہ علاقوں کو اپنا میدان عمل بنایا تھااور تعلیم وتعلم میں امت مسلمہ کو آگے بڑھانے کے لیے اڈیشہ بنگال جھارکھنڈ اور بہار میں آپ نے مدارس و مساجد کا جال بچھا رکھا تھا جس سے ایک بہت بڑی تعداد مستفید ہو رہی ہے نیز آپکو ہمدردانہ سلوک  امت کی فکر اور اپنی دینی و ملی خدمات کی بدولت ہر طبقے میں مقبولیت حاصل تھی  یہی وجہ ہے کہ آپ جہاں بھی جاتے تھے آپکی باتیں توجہ کے ساتھ سنی جاتی تھی یقینا آپکے خدمات کا دائرہ بڑا وسیع تھا اور آپ نے ایسے کارنامے انجام دیے اور علمی دینی و ملی خدمات کے ایسے گہرے نقوش چھوڑے جنکو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی جسکی نظیر آپکے آخری پیغام اور آخری انٹرویو سے بھی ملتی ہے اسوقت بھی ان کو امت کی فکر تھی اور  ایسی ممتاز جامع کمال و صفات شخصیت  کا اچانک سے روپوش ہو جانا واقعةً امت کے لیے بڑا عظیم خسارہ ہے.  
نام: 
مولنا اسرار الحق صاحب قاسمی والد کانام شری منشی امیر علی
ولادت:
۱۵ فروری ۱۹۴۲ء کو ضلع کشن گنج سے ۴۰ کیلو میٹر دور تارابری گاؤں میں شری منشی امیر علی کے گھر آپکی ولادت ہوئ.
تعلیم :
ابتدائ تعلیم علاقے کے مختلف مدارس میں حاصل کی اسکے بعد ام المدارس دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا جہاں ممتاز ترین علماء سے علوم شرعیہ کو حاصل کیا اور آپ ممتاز طالب علم میں شمار کیے جاتے تھے اور وہاں سے۱۹۶۴ میں سند فراغت حاصل کی. 
اور آپ نے بیعت وسلوک کا تعلق حضرت مولنا شاہ مظفر الدین مظاہری سے قائم کیاتھا انکے انتقال کے بعد بقیة السلف حضرت مولنا قمر الزماں صاحب الٰہ آبادی کے ہاتھ پر تجدید بیعت کی اور خلافت سے سرفراز ہوئے .
منصب: 
فراغت کے بعد کچھ دنوں تک بہار کے سرائے میں قائم مدرسہ بدر الاسلام میں درس وتدریس سے وابستہ رہے پھر اسکے بعد قوم کے حالات کو دیکھ کر ملی وسماجی خدمات میں اپنا وقت صرف کرنے لگے اور جمیعة علمائے ہند سے وابستہ ہو کر برسوں تک جمیعة کے جنرل سکریٹری رہے اور دارالعلوم کے رکن شوری منتخب ہوئے  
۲۰۰۹ میں انڈین نیشنل کانگریس کی ٹکٹ پر کشن گنج کی نشست سے عام انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے  
۲۰۱۴ کو عام ا نتخابات میں انھوں نے دلپ جیسوال سے مقابلہ کیا اور اپنی نشست برقرار رکھی پورے صوبے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے آپ پارلیمینٹ کے اہم رکن تھے . 
نکاح: 
اس درمیان ۱۶مئ ۱۹۶۵ ء کو نکاح کر لیا تھا چنانچہ آپکی دو نرینہ اور تین مؤنث اولاد ہیں ۹ جولائ ۲۰۱۲ کو آپکی اہلیہ محترمہ اس دنیا سے چل بسی. 
اوصاف وکمالات:
آپ عالم باعمل عظیم سیاست داں مفکر ومدبر تھے سنجیدہ مقرر بہترین قلمکار بے باک صحافی مشہور کالم نگار  بھی تھے اورانتہائ سادہ متواضع ملنسار خوش اخلاق حلیم وبردبار تھے شہرت نام و نمود سے کوسوں دور ٹپ ٹاپ سے اجتناب کرنے والے اور دشمنوں کو گلے لگا کر دوستوں کی حوصلہ افزائ کرنے والے نیز قوم کے درد میں اپنے آپ کو گھلانے والے تھےکبھی بھی اپنی غیر معمولی نیک نامی کو زر کشی یا خاندانی یامادّی وسائل کے لیےاستعمال نہیں کیا آپکی شرافت نفسی کا پتہ اس سے بھی چلتا ہے کہ ۱۰ سال مکمل کر کے جمیعة علمائے ہند کے عہدے سے علٰحیدگی کے بعد انھوں نے کبھی جمیعة یا انکے قائدین کے خلاف نہ کوئ بات کہی اور نہ کوئ بات لکھی یہ انکی اعلٰی ظرفی کے ساتھ ساتھ  وسیع القلبی اور شرافتِ نفسی کی بات ہے حالاں کہ ایسی جگہوں پر بڑے بڑے بزگوں کی بزرگی پر پانی پھر جاتا ہے اللہ نے انھیں صبر وتحمل اور قوت برداشت عطاء کیا تھا  بیک وقت اتنے اوصاف وکمالات کے جامع بہت کم لوگ ہوتے ہیں. 
خدمات:  
یوں تو آپ نے بے شمار خدمات انجام دیے کوئ حلقہ خواہ دینی ہو یادنیوی سماجی ہو یا ملی انکی خدمات سے خالی نہیں ہے سیمانچل کے پسماندہ علاقے کی ترقی کے لیے آل انڈیا ملی تعلیمی فاؤنڈیشن قائم کیا آپکا امارت شرعیہ سے بھی اچھا تعلق رہا  اور کشن گنج میں علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کی شاخ قائم فرمائ آپ نے مولنا سید اسعد مدنی کے شانہ بشانہ رہ کر مسلم قوم کی دادرسی کر کے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا دیا اور بہار اڈیشہ بنگال جھارکھنڈ میں مدارس ومکاتب اور مساجد کا جال بچھا دیا جنکی تعداد ۳۰۰ سےزائد ہے سیمانچل کے سیلاب میں خدمت کر کے ہر ممکن امداد پہنچائ اور مختلف ملی وسماجی اداروں کے روح رواں اور سر گرم رکن تھے جہاں آپ بہترین  سیاسی قائد تھے وہیں آپ سنجیدہ قلمکار اور شعلہ بیان مقرر بھی تھے آپکی تمام صلاحیتوں سے تمام طبقے کے لوگ ہمہ وقت مستفید ہو رہے مختلف موضوع پر آپ نے قلم اٹھایا اور انکا حق ادا کردیا آپ نے ایک خطاب میں فرمایا کہ تقریبا ایک لاکھ تیس ہزار گاؤں میں میں خود گیا اور اپنی ملت کے درد و غم کو قریب سے دیکھ کر انکو محسوس کر کے اسکا اظہار کرتے رہا قوم کی حالت دیکھ کر جو درد میں نے سمیٹا ہے اب میرے پاس اسکو بانٹنے کے سوا کچھ نہ رہا مسلمانوں کے حقوق کے لیے آپ پارلیمینٹ میں بات کیا کرتے تھے مختلف کتابیں آپ نے لکھی جسکے الگ الگ زبان میں ترجمے ہوئے آپ نے دینی ملی اور سماجی خدمات کی بدولت تمام ہی طبقوں میں مقبولیت حاصل کر لی تھی یہی وجہ تھی کہ ہر طبقے کے لوگ آ پکے بیان کو بڑی توجہ سے سنتے تھے آپ امت کے لیے اتنے فکر مند تھے کہ آخری انٹرویو میں کشن گنج میں بڑے اسپتال کا مطالبہ کیا آپکی تحریروں آپکی کتابوں سے امت فیض یاب ہو رہی ہے اور آپکی رحلت سے بہت سے میدانوں میں اندھیرا سا چھا گیا آپ نے تحریر وصحافت کی دنیا میں بھی اپنے فکر وفن کے چراغ روشن کیے اور اپنی خدمات سے یہ پیغام دیا کہ اپنی صلاحیتوں کے ذریعے مختلف طبقات کو فائدہ پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اللہ نے جو صلاحیت دی ہے اسکا مسلسل استعمال اسکو زندگی اور تازگی عطا کرتا ہے .
واقعات:
ایک مرتبہ پار لیمینٹ میں ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا تو اپنا رومال بچھا کر نماز ادا کرنے لگے اور انکے پیچھے وزیر اعظم نریندر مودی کھڑے رہے جب نماز پوری ہوگئ تو ان سے پوچھا مولنا کیا حال ہے چونکہ اسوقت انکو ایٹیک آیاتھا .
آخری پیغام:
آپنے آخری بیان میں امت مسلمہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی  تعمیر فرمائ اور  ایک درسگاہ بھی بنایا جسے صفہ کہا جاتا ہے اس سے امت کو یہ پیغام دیا کہ امت کے لیے ضروری ہے کہ قیامت تک دنیا میں جو حالات در پیش ہو نگے اُن سے مقابلہ کے لیے دو قوّت کا استعمال کرے.
 ۱)اللہ کا یقین یعنی توحید جو کہ مسجد سے پیدا ہو گا .
 ۲) کردار  سیرت النبی صلی اللہ علی وسلم کی روشنی میں مدرسے سے حاصل ہو گا .
بہترین کردار کے ساتھ خدا پر یقین ہو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جسطرح ۱۳ سال تک مکی زندگی میں مقابلہ کیا اسی طرح ہم بھی مقابلہ کر سکتے ہیں لہٰذا فہم و تدبر اور حکمت عملی کے ساتھ حالات پر نظر رکھتے ہوئے سیرت  النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے رکھیں اور ا گلی منزل طے کریں چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:  فإن تصبروا وتتقوا فإن ذلك لمن عزم الأمور .
ایسے حالات میں غوروفکر کر کےسوچو کیسی حکمت عملی اختیار کرنی ہے اور اعمال کو درست کرو اب ضرورت ہے کہ انکے چھیڑے ہوئے کام کو مکمل کیا جائے اور انکے تراشے ہوئے راہوں پر اخیر تک چلا جائے اور انکے وضع کردہ منصوبوں اور خاکوں میں ہنر مندانہ طور پر رنگ بھرنے کی کوشش کی جائے.
وفات:
مولنا پروگرام سے فراغت کے بعد کشن گنج کے سر کٹ ہاؤس میں ٹہرے آپکے بڑے داماد فیاض عالم کے بیان کے مطابق رات کے تین بجے تہجد کے لیے مولنا بیدار ہوئے تو انھیں درد محسوس ہوا انھوں نے سیکورٹی کو بلوایا اور کہا کہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے چلو جب انھیں ڈاکٹر کے پاس لے جارہے تھے تو انھوں نے کہا کہ میں اللہ کے پاس جا رہا ہوں مجھ سے کوئ غلطی ہوئ ہو تو معاف کردینا مولنا نے یہ بھی کہا کہ مجھے سب لوگ معاف کردیں اور میرے لیے مغفرت کی دعاء کریں چنانچہ ۷ دسمبر ۲۰۱۸ کو بروز جمعہ ۳: ۳۰ پر اچانک دل کا دورہ پڑجانے کے بعد اپنی عمر کے ۷۶ سال مکمل کر کے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے انا للہ وانا الیہ راجعون .
آہ ہم نے ایک عظیم شخصیت کو کھو دیا حضرت مولنا انوارالحق ناظم دارالعلوم بہادر گنج نے دوپہر ۳ بجے ملی گرلس اسکول کے احاطے میں آپکی جنازہ کی نماز پڑھائ ایک جم غفیر نے آپکے جنازے میں شرکت کی اور  آپکی وفات سے تمام ہی حلقوں میں غم کے بادل منڈلا رہے ہیں.
ہم اللہ تعالی سے مولنا کی تئیں! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حدیث کی وجہ سے مغفرت اور فتنئہ قبر سے حفاظت کی امید رکھتے ہیں.
مامن مسلم يموت يوم الجمعة او ليلة الجمعة الا وقاه الله فتنة القبر.
جو مسلمان بھی جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات فوت ہوتا ہے اللہ اسے قبر کے فتنے سے محفوط رکھتا ہے ( ترمذی  ۱۰۷۶)
 آپکی بھی وفات جمعہ کے دن ہی ہوئ ہے اللہ تعالی آپکی بال بال مغفرت فرمائے اور آپکے تمام خدمات کو قبول ومقبول فرمائے اورا  مت کو آپکا بدل عطاء فرمائے اور آپکے پس ماندگان و صبرجمیل کی توفیق عطاء فرمائے آپکی قبر کو نور سے منوّر فر مائے آمین .....

کوئی تبصرے نہیں