موجوہ حالات میں ہمیں کیاکرناچاہیے؟ - Siddiqahmad.com

موجوہ حالات میں ہمیں کیاکرناچاہیے؟



موجودہ حالات میں ہمیں کیاکرناچاہیے؟

از:  مفتی صدیق احمدبن مفتی شفیق الرحمن قاسمی

آج کے اس پر فتن دور میں جہاں لوگ مفاد پرستی خود غرضی اور عیاشی میں جینے کے ساتھ ساتھ مال و دولت کے بہاؤ میں بہتے ہوئے دین سے کوسوں دور جارہے ہیں؛ اور اپنی نفسانی خواہشات کے شکم کو چاک کرنے کے بجائے اسکا پیٹ بھرنے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ حدیث نبوی سے یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ اس کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہےـ
 جس کا نتیجہ یہ ہورہا ہیکہ ظلم وتشدد ،ہتک عزت، عذاب اور مصائب و آلام، ذلت وشکستگی ،ہمارا مقدر بن چکی ہے،  اور حق بات ماننا تو در کنار سننا بھی گوارا نہیں کرتے،  تاہم کچھ لوگوں نے تو اسی کو اصل ٹھکانہ سمجھ رکھاہے، غیروں میں اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ امتیاز مشکل ہوجاتا ہے، علاوہ ازیں بعض لوگ تو ارتداد کے دہانے پر کھڑے ہوچکے ہیں اب گرے تب گرےـ
 آپ دنیا پر ایک نظر ڈالیں گے تو پتہ چلے گا کہ مسلمان اس وقت عجیب وغریب حالات سے دوچار ہیں ایسا لگتا ہیکہ وہ زمانہ آچکا ہے جس کے متعلق حضور ا قدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ صبح مؤمن ہونے کی حالت میں گھر سے نکلے گا اور گھر واپس آئے گا تو ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہو گا، حالات کچھ ایسے ہی ہیں آخر ایسا کیوں؟ 
 ہم نے فرائض کی ادائیگی کو چھوڑ کرآئے دن گناہوں کے سمندروں میں غوطہ لگاتے جارہے ہیں،  لیکن بے حسی کا عالم یہ ہیکہ اب بھی ذرہ برابر فکر واحساس نہیں،  کیا ہم میں اور غیروں میں  نام کا ہی فرق باقی رہ گیا ؟ 
 یاد رکھیں! اس کا اعتبار دنیا کے اندر تو ہوسکتا ہے، لیکن آخرت میں کوئ اعتبار نہیں ہو گا جبکہ ایمان بھی رخصت ہو جائے ،ہم اپنے قائدین اور علماء کی قدر کرنے کے بجائے انکی ٹوہ میں لگ کر ان کی عزتوں کو پامال کرنے میں لگ گئے ہیں ـ
یاد رہے ! اس سے انکا  نقصان تو نہیں ہو گا ،لیکن یہ ہمارے لیے اور ہماری اولاد کے مستقبل کے لیے انتہائ خطرہ کا باعث ہوگا،کیونکہ بچوں کے مستقبل کو سنوارنےمیں ایک کردار استاذ کا بھی ہو تاہے جبکہ وہ حقیقی معنی میں استاذ ہو،بچوں کی دینی تربیت کر کے اسلامی ذہن سازی کرے، خود بھی عامل ہو شریعت پر اور ان کو بھی عملی جامہ پہنا کر  اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ اور تابعین  کے واقعات  اور سلف صالحین کے سوانح سنا کر شوق ورغبت پیدا کرےـ
یہی وجہ ہیکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو معلم بنا کر بھیجا گیا اور آ پ نے اپنی ذمہ داری کو امانت داری کے ساتھ پورا کیا ،جس کے نتیجے میں صحابہ تابعین تبع تابعن آئمئہ مجتھدین  سلف صالحین کے ذریعے یہ دین اسلام ہم تک پہنچا، اب ہماری ذمہ داری ہیکہ اس کو بحفاظت اپنی آنے والی نسلوں تک پہنچائے اسکے لیے فکر مند ہوں ـ لیکن معاملہ اسکے برعکس نظرآرہا ہے ہم ناقدری ناشکری پر اترے ہوئے ہیں ـ
ذرا ہم اپنا محاسبہ کریں!!  قوم کاجائزہ لیں اور سوچیں ہم کہاں تھے اور اب کہاں پہنچ گئیں ؟ 
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ ہر گز گمراہ نہیں ہو سکتے جب تک کہ قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامے رہوـ
حضرت مولنا محمود حسن صاحب جب مالٹا کی جیل میں قید ہوئے تو انھوں نے غور وفکر کیا کہ مسلمانوں کی تنزلی کا سبب کیاہے؟  پتہ چلا قرآن کی تلاوت کو چھوڑنا اورآپسی اختلافات ـ
حضرت مولنا ابو الحسن علی ندوی نے فرمایا کہ اگر قوم کو پنج وقتہ نمازی نہیں بلکہ تھجد گزار بھی بنا دیا جائے، لیکن اس کے سیاسی شعور کو بیدار نہ کیا جائے اور ملک کے احوال وکوائف سے انکو واقف نہ کیاجائے تو ممکن ہے اس ملک میں آئندہ تھجد تو دور کی بات پانچ وقتوں کی نماز پر بھی پابندی عائد ہوجائےـ
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ امت کامدار دو طبقوں پر ہے  ۱علماء ۲ صاحب اقتدار. اسلیے ان دونوں کو فکر کرنے ضرورت ہے ـ
تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئ ہے کہ انڈیا سے ایک قافلہ اندلس گیا تھا اس بات کی تحقیق کےلیے یہاں سے چوٹی کے  محدثین بڑے بڑے علماء کرام پیدا ہوئے جنھوں نےپوری دنیا کو اپنا لوہا منوایا، لیکن آج وہاں کی حالت یہ ہوگئ ہیکہ اللہ کانام لینا بھی قانونا جرم سمجھا جاتا ہے آخر اتنی بڑی تبدیلی کی وجہ کیا ہے؟  
چنانچہ پتہ چلا کہ امت کےعلماء کے تئیں اعتماد و بھروسہ کو  کمزور کر کے ختم کیا گیا، اس کے بعد بتدریج ایسا دن بھی آگیا کہ اللہ کانام لینا قانونا جرم ہو گیاـ
اس لیے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہےـ
حضرت مولنا سجاد نعمانی صاحب نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہو ئے فرمایاکہ ہمارے ملک میں کفر و اسلام حق وباطل اور ظلم و انصاف کی لڑائ چل رہی ہے،  ہمیں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے رکھتے ہو ئے تمام پہلوپر غور کر کے نئ حکمت عملی سے کام کرنا ہو گا ،جسے ہم ہندو کہہ کر پکا ررہے ہیں وہ ایک قوم نہیں، بلکہ پانچ ہزار قبائل کا ایک مجموعہ ہےـ
  اصل مسئلہ ظالم مظلوم کا ہے، اونچ نیچ کا ہے ـ
یاد رہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قبیلوں سے الگ الگ معاہدہ کیاتھا،لہذا اخلاص کے ساتھ اپنے بھولے پن کو ختم کرکے ہمیں نئ حکمت عملی سے آگے بڑھنا ہے ،ان شاء ا للہ ترقی ہمارے قدم چومے گی ـ
خلاصہ یہ ہیکہ اس دور کی اہم ضرورت  قرآنی تعلیمات پر عمل اور نبوی طریقہ کو اپنا تے ہوئے علماء کی قدر دانی ان پر اعتماد کر نے کے ساتھ ساتھ قوم کے سیاسی شعور کو بیدار کرناہے، قوم کو ہمہ وقت ملک کے احوال و کوائف سے واقف کراتے رہیں،بچوں کی اسلامی تعلیم کے ساتھ دینی تربیت کر کے  سیرت النبی صحابہ کرام تابعین سلف صالحین  کے واقعات کے ذریعے ان کے اندر آگے بڑھنے کے شوق و رغبت کو جلا بخشنے میں مصروف رہیں ،ان سب کو کرنے سے قبل اللہ تعالی سے توبہ واستغفار کرکے معافی مانگے اپنے لیے،امت کےلیے ،دعاء مانگے اور صدقہ نکالیں ،پھر اللہ تعالی کی مدد سے آگے بڑھیں ،ان شاء اللہ ہمارا مستقبل روشن وتابناک ہوگاـ
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
آسمان ہوگا سحر کے نور سے آئیں پوش
اور ظلمت رات سیماب پا ہو جائے گی 
آملیں گے سینے چا کان چمن سے سینہ چاک
بزم گل نفس باد صبا ہو جائے گی
آنکھ جو دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمئہ توحید سے

کوئی تبصرے نہیں