حلال کسب معاش ایک اہم فریضہ اورضرورت - Siddiqahmad.com

حلال کسب معاش ایک اہم فریضہ اورضرورت

حلال کسب معاش ایک اہم فریضہ اورضرورت

ازقلم: مفتی صدیق احمد بن مفتی شفیق الرحمن قاسمی 

یہ ایک بدیہی بات ہے کہ دواء انسانی جسم پر اور غذاء انسانی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے اسی طرح دیگر کھانے پینے کی چیزیں بھی جسم وقلب اور روحانی کیفیات پر اپنا اثر چھوڑتی ہے اور دل کی صفائ ستھرائ میں بھی اسکا اہم حصہ ہوتاہے ،نیز انسان کو صحت وقوت اور طاقت بخشنے میں اشیاء خوردنی کا ایک انو کھاکردارہے اسی طرح کھانے پینے کی چیز کی حلت وحرمت کا بھی غیر شعوری طورپر انسان کے دل ودماغ اور طبیعت پر اثر ہوتا ہےـ
لہٰذا اگر حلال اور پاکیزہ غذاء ہو تو انسانی طبیعت اطاعتِ خداوندی اور اچھے اعمال کی طرف مائل ہوتی ہے اور اسی میں جی لگتا ہے لیکن اگر غذاء فاسد وحرام اور گندی ہو تو انسانی جسم سے لیکر دل ودماغ کوبھی گندہ کر کے اطاعت وفرمانبرداری اور فرائض وواجبات کی ادئیگی سے روک دیتی ہے اور یہی نہیں بلکہ انسانی زندگی کو احکام خداوندی اور اطاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل اجیرن اور کھوکھلا کردیتی ہے جسکا اثر نسل درنسل ہوتا ہے اور یہ کئ نسلوں کی تباہی و بربادی کا سبب بنتاہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں تمام اسبابِ تباہی اور تمام منھیات سے اجتناب کر کے اپنی جوانی وبڑھاپے کو بے داغ گزار کر فلاح وکامرانی کے خوش کن نغمے گاتے لیکن معاملہ اسکے برعکس نظر آرہا ہے حرام اشیاء سود اور جُوّا اتنا عام ہوگیا ہے کہ شاید اس سے کوئ بھی گھر خالی نہ ہو باوجودیکہ احادیث میں اسکی قباحت وبرائ آئ ہے نیز اسکے دینی اور دنیوی ہر اعتبار سے بے شمار نقصانات ہیں ـ
چنانچہ اللہ تبارک وتعالی نے رسولوں کو حکم دیا. ياايها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا، اے رسولو! حلال اور پاکیزہ روزی کھاؤ اور اچھے اعمال کرو . (القرآن)
اسمیں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے اوّلاً کھانے کا حلال ہونا ازحد ضروری ہے تاکہ اچھے اثرات مرتب ہوں عبادت کا ذوق پیدا ہو اور عمدہ صفات کے رسولوں کے اندر سمانے میں کوئ رکاوٹ کوئ پریشانی درپیش نہ ہو پھر اچھے سے عبادت خداوندی میں مشغول رہے ـ
اس سے امت مسلمہ کو بھی سبق دیا کہ حلال غذاء اختیار کیے بغیر حرام کے سائے میں پلتے ہوئے کامیابی کی امیدیں چھوڑ دو کیونکہ غذاء حلال اور پاکیزہ نہ ہو تو عبادتیں قبول ہی نہیں ہوگی ـ
لیکن افسوس کا مقام ہے کہ انسان دو وقت کی روٹی کے لیے محض اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر جو جی چاہے کھاتا پیتا رہتا ہے اسے نہ کوئ پرواہ ہے اور نہ ہی کوئ فکر حالانکہ حرام غذاء کی وجہ سے غیر محسوس طریقے سے اسکاقلب زنگ آلود اور اسکی نحوست سے دل سخت ہوتا رہتا ہے بالآخر توبہ کی توفیق بھی سلب ہوجاتی ہے ـ

غور کرنے کامقام ہے کہ دنیا کے تمام جنّ وانس اور جاندار کے رزق کا ذمّہ اللہ تعالی نے لیا ہے وہ ہر ایک کو رزق دیتا ہے جیسا کہ اللہ نے فرما یا. وما من دآبّة في الارض الا علي الله رزقها. اس روئے زمین پر رینگنے والے تمام جاندار کے رزق کا ذمّہ اللہ تعالی نے لیا ہے.( القرآن)

اسی وجہ سے جب انسان کے اعضاء کی تکمیل ہو جاتی ہے تو اللہ تعالی ایک فرشتہ کولکھنے کا حکم دیتا ہے کہ اسکا رزق کتنا اور کس کس طریقے سے پہنچنا ہے ـ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ. الا! لن تموت حتي تستكمل رزقها . ہر گز کوئ شخص تم میں سے نہیں انتقال کرے گا یہاں تک کہ وہ اپنے مقرّرہ رزق کو پالے. (الحديث)

جس طرح موت انسان کو تلاش کرتی ہے اسی طرح انسان کا رزق بھی اسےتلاش کرتا ہے. اسلیے اسکی فکر میں حرام میں نہ پڑو! بس اسباب اختیار کرواور اللہ پر توکّل اور بھروسہ رکھو روزی اللہ دے گاـ

چنانچہ اللہ کا فرمان ہے. فإذا قضيت الصلوة فانتشروا في الارض وابتغوا من فضل الله. جب تم نماز پڑھ لو تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے فضل یعنی رزق کو تلاش کروـ
 لہٰذا پتہ چلا کہ حلال اسباب اختیار کرنا حلال روزی کے لیے ایک اہم فریضہ اور قت کی ضرورت ہے. (القرآن)

نیز یہ بھی فرمان ہے. فكلوا مما رزقكم الله حلالاطيبا واشكروا نعمة الله. کہ حلال اور پاکیزہ روزی کھاؤ اور اللہ کی نعمتوں کاشکر ادا کرو .( القرآن)

یہی وجہ ہے کہ روزی کے متعلق پرندے بالکل بے فکر رہتے ہیں وہ اللہ تعالی پر توکّل اور بھروسہ رکھتے ہیں اگر اسی طرح بندے بھی اللہ پر توکّل اور بھروسہ کرتے تو جیسے اللہ پرندوں کو روزی دیتا ہے ویسے ہی تمھیں بھی پاکیزہ روزی عطاء کرتا کہ وہ صبح خالی پیٹ اڑتے ہیں شام کو گھر اس حال میں پہنچتے ہیں کہ انکا پیٹ بھرا ہوا ہوتا ہے. جسکا نقشہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ حدیث میں کھینچا ہےـ

قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لو انكم كنتم توكّلون علي الله حق توكّله لرزقتم كما يرزق الطير تغدو خما صا وتروح بطانا. (الحديث)

حلال کھانے کے یوں تو بے شمار فوائد ہیں جن میں سے چند فائدےقابل ذکر ہیں ـ
حلال کھانے سےایک نور پیدا ہوتا ہے. اخلاق فاضلہ کی رغبت اور اسکا شوق ہوتا ہے نیز عبادت میں دل لگتا ہے گناہ سے جی گھبراتا ہے دعاء قبول ہوتی ہے. کیونکہ دعاء کی قبولیت کے دو بازو ہیں ۱) اکل حلال: حلال اور پاکیزہ روزی کھانا ۲) صدق مقال: سچی بات کہناـ

حلال روزی کی بر کت سے انسانی اخلاق میں سب سے بڑا جوجوہر ایثار وہمدردی اور سخاوت کا ہے وہ زندہ ہوتا ہے نتیجةً وہ شخص خود تکلیف اٹھاکر دوسروں کی راحت رسانی کے لیے فکر مند ہوتا ہے. اورمصیبت زدہ کو تسلی دے کر خوشی بانٹنے کی فکر کرتا ہےـ

ایک طویل حدیث میں ہےکہ اللہ سے ڈرو اور حرام سے پر ہیز کرو سب سے زیادہ عبادت گزار بن جاؤگے.( الحدیث)

کسب حلال شرافت کی علامت اور عزّت ووقار کی دلیل ہے کہ انسان جب کسب حلال میں سر گرم ہوتا ہے تو اسکو مسکنت اور غریبی نہیں چھوتی اور نہ ہی وہ ہاتھ پھیلاتا ہےـ

کہا جاتا ہے کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے نصیحت کی تھی کہ ائے میرے بیٹے کسب حلال کے ذریعے فقر سے استغنٰی حاصل کرلو اسلیے کہ جسکو فقر لاحق ہوتا اسمیں یہ سب خرابی پیدا ہوجاتی ہےـ

۱) دین میں کمزوری ۲)عقیدے میں ضعف ۳) زوال مروّت . اسکے بر عکس کسب حلال میں منھمک رہنے سے یہ سب فوائد حاصل ہوتے ہیں ۱)انسان کی معیشت اچھی رہتی ہے ۲)دین کی سلامتی بھی نصیب ہوتی ہے ۳)عزّت وناموس کی حفاظت بھی ہوتی ہے ۴) چہرے سے نور ٹپکتاہے اور لوگوں کی نگاہوں میں باوقار رہتاہےـ

جس طرح حلال اور پاکیزہ روزی کے بے شمار فوائد ہیں اسی طرح حرام کے ان گنت نقصانات ہیں ـ

سود خوری کے نتیجے میں مال کی حرص اتنی بڑھتی ہے کہ بھلے برے کی کوئ تمیز نہیں رہتی ہے انجام سے غافل ہوتا ہے.نیز سود کی ممانعت پر قرآن شاہد ہےـ

اسی لیے اللہ کا فرمان ہے. يا ايها الذين اٰمنوا لاتأكلوا الربو. کہ اے ایمان والو! سود اور حرام مال کونہ کھاؤ! (القرآن)

نیز سود خوری سے انسان کے اندر سے سخاوت وہمدردی کا جوہر جاتا رہتا ہے اور عبادت کاذوق بالکل ختم ہوجاتا ہے. دعاء قبول نہیں ہوتی ہے اسکے علاوہ بھی بے شمار خسارہ اور نقصان اٹھانا پڑتا ہےـ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ ایک آدمی پراگندہ حال میں دور دراز سے آیا ہوا ہے اور جا کر اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھ کر دعاء مانگتا ہے: اے میرے رب اے میرے رب مگر حال یہ ھیکہ کھانا حرام پینا حرام لباس حرام بچپن سے لیکر آج تک حرام غذاؤں سے پرورش پائ تو اسکی دعاء کس طرح قبول ہوگی قبولیت کے تمام اسباب موجود ہے لیکن محض حرام سے نہ پچنے کی وجہ سے دعاء کی قبولیت سے محروم ہوگیا. (الحدیث)

آج کل ہوٹل بازی بازار کا کھانا بلاتحقیق زبان کو مزہ چکھا نے کے لیے الگ الگ ذائقہ کا مزہ چکھنا ایک عادت سی ہوگئ اور یہ وباء اتنی عام ہوچکی ہے کہ شاید ہی کوئ شخص اسکا شکار ہونے سے بچا ہو حالانکہ کھانے والوں کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ حلال طور پر اللہ کانام لے کر ذبح شدہ حلال جانور کا گوشت ہے یا حرام جانور کا بغیر بسم اللہ کے ذبح کیا ہوا جانور ہےـ

قرآن کریم میں اللہ کاحکم ہے: ولاتأكلوا مما لم يذكر اسم الله عليه. کہ ایسے جانوروں کا گوشت ہر گز نہ کھاؤ جس کو اللہ کانام لیکر شرعی طور پر ذبح نہ کیا گیا ہو .(القرآن)

اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ باطل نے ایسی ایسی چیزوں کو رواج دیدیا ہے اور ایسا فیشن بنا کر پیش کیا ہے کہ جس میں حرام مادّوں سے لیکر حرام چربی اور دیگر ایسی چیزوں کو شامل کر کے کھانے کی مختلف چیزیں بنا کر پیش کی جاتی ہے کہ جسکو شریعت مطھّرہ نے حرام قرار دیا ہے اورتمام ہی لوگ بلا سوچے سمجھے بغیر تحقیق کے شوق ورغبت سے اسکو استعمال میں لاتے ہیں جسکی نحوست سے باطنی اعتبار سے پورے طور پر بتدریج کھوکھلے ہوتے جاتے ہیں اور برائیوں سے بے حد قریب ہوتے رہتے ہیں حتّٰی کہ اسی کی نذر ہو کر اپنی زندگی کے قیمتی اوقات کو خواہشات کے پیچھے ضائع کر دیتے ہیں ـ

باوجودیکہ حدیث مبارکہ اس بات پر شاہد ہے کہ جو گوشت حرام لقمے سے پرورش پائے اسکے لیے آگ ہی زیادہ مستحق ہے (الحدیث)

حدیث مبارکہ میں یہ بھی وارد ہے کہ جب کسی قوم میں سود کارواج ہوجاتاہے تو اللہ ان پر ضروریات کی گرانی کو مسلّط کردیتا ہے اور جب کسی قوم میں رشوت عام ہوجائے تو دشمنوں کا رعب وغلبہ ان پر ہوجاتا ہے (الحدیث)

بعض لوگ تو وہ ہیں جنھوں نےکمزورلوگوں کے مالوں کوناحق ہڑپ کر غصب کر کے کھانے کی عادت بنا رکھی ہے جبکہ کسی کامال ہڑپ کرنا یا غصب کرنا حرام ناجائز اور سخت گناہ ہے .نیز یہ حقوق العباد یعنی بندے کے حقوق سے متعلق ہے جسکی معافی اور پوچھ تاچھ میں بڑی مشقّّتیں اور پریشانی جھیلنی پڑ سکتی ہیں چونکہ حقوق العباد کامعاملہ بڑا مشکل اور دشوار ہےـ

یاد رہے! حرام مال کھانے کے نقصانات میں سر فہرست دل کاسخت ہوجانا ہے اور اطاعت خداوندی سے دوری دعاء کا قبول نہ ہونا ایثار وہمدردی کا جذبہ ناپید اور ختم ہوجانا ہے نیز عبادت کا ذوق جاتا رہتا ہے مال کی حرص اتنی بڑھ جاتی ہے کہ حلال حرام کی بالکل تمیز ہی باقی نہین رہتی اخلاق رذیلہ رگ وریشہ میں پیوست ہوجاتا ہے عبادت میں جی نہیں لگتا ،من جملہ ان ہی نقصانا ت میں سے دل کی سختی کو ہی لیتے ہیں کہ جب دل کے اندر ہی سختی آجائے گی تو خیر کی بات بھلائ کا کام اور اچھے اعمال تو در کنار دل پر ان کا شائبہ بھی نہیں گزرے گا اور یہ نحوست اس شخص کو ہلاکت وبربادی کی ایسی دہلیز پر لا کھڑا کرے گی کہ اب اسلام وایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے کشتی اسلام اور کفر کے درمیان گردش کرتی رہے گی اور توبہ کی توفیق سلب ہوجائے گی بالآخر وہ دنیا سے اس حال میں جائے گا کہ ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھا ہوگا ـ

چنانچہ قرآن کریم میں اللہ کا فرمان ہے. يااياالذين امنوالا تأكلوااموالكم بينكم بالباطل . کہ اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کامال ناحق طریقے سے مت کھاؤ. (القرآن)

اسلیے ضرورت ہے اس بات کی کہ ان تمام برائیوں سے پورے طور پر بچ کر حد درجہ محتاط رہتے ہوئےحلال روزی کی فکر کی جائے.

خلاصئہ کلام یہ ھیکہ اس پُر فتن دور میں حلال اور پاکیزہ روزی کے لیے حلال اور جائز اسباب اختیار کرنا بے حد ضروری اور وقت کی ضرورت ہے جس سے کسی بھی انسان کو کوئ چارہ نہیں ہے، رہی بات روزی کی تو اسکا ذمہ اللہ نے لیا ہے جس کی روزی جتنی مقدّر میں لکھی ہے ہر ایک کو اتنی مل کر ہی رہے گی، اس سے پہلے اسکی موت نہیں آئے گی، نیز سود اور ناحق طریقے سے غصب کیے ہوئے مال کے اتنے نقصانات ہیں اتنی وعیدیں ہیں کہ کی کرائ پوری زندگی کی تمام عبادتیں ساری ریاضتیں اسکی وجہ سے ضائع ہونے کا پورا اندیشہ اور خطرہ ہے اور موجودہ دور کی صورت حال سے کون ناواقف ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اسلام دشمن طاقتیں اور اہل باطل مسلسل آئے دن طرح طرح کی سازشیں رچ رہے ہیں جن میں سے حرام مال سود جوّا اور نئے نئے ناموں سے نئے نئے طریقوں کو اپنا کر مسلمانوں کے پیٹ میں حرام مال پہنچا کر انکو روحانی اور باطنی اعتبار سے پورے طور پر کھوکھلا کر کے انکی ایمانی طاقت ایمانی حمیّت غیرت اور شرم وحیاء کا جنازہ نکال کر انکو دستور حیات کی خلاف ورزی کر کے زندگی گزار نے پر مجبور کرنےکی انتھک کوشش کر رہے ہیں ایسے حالات میں نہایت ہی احتیاط سے اپنے اوقات کو گناہوں اور لغویات اور ضیاع سے بچا کر سنبھل سنبھل کر تمام منھیات وحرام چیزوں سے بچتے ہوئے عبادت خداوندی میں مشغول ہو کر حلال کسب معاش کو اختیار کرنا حلال اور پاکیزہ روزہ کھاکر اپنی اور اپنے خاندان والوں کی اپنی آئندہ کی نسلوں کو تباہی وبربادی سے بچانے کی فکر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی سابقہ تمام غلطیوں سے ندامت و پشیمان ہوکر آئندہ کےلیےگناہوں سے بچنے کاپختہ عزم مصمّم کر کے اللہ سے توبہ واستغفار کر نااور آخرت کے لیے فکرمند ہوکراپنی آخرت کے لیے نیکیوں کے ذخیرہ اندوزی میں لگ جائیں، ان شاء اللہ اللہ تعالی تمام نقصانات سے محفوظ رکھے گا اور کامیابی سے ہمکنار کرے گاـ

اخیر میں اللہ سے دعاہے کہ اللہ تعالی امت مسلمہ کے جان ومال عزت وآبرو کی پوری پوری حفاظت فرمائے اور باطل طاقتوں کے سازشوں کو ناکام و نامراد کر کے انکو نیست و نابود کر دے اور مسلمانوں کو حرام مال سے بچ کر حلال کسب معاش اختیار کر کے غفلت کا پردہ ہٹا کر اطاعت خداوندی کے سائے تلے اتحاد و اتفاق اورباہم محبت کے ساتھ خوشگوار زندگی گزارنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین یارب العالمین ……

کوئی تبصرے نہیں