ہجومی تشددایک خطرہ - Siddiqahmad.com

ہجومی تشددایک خطرہ


ہجومی تشدد ایک خطرہ!

ازقلم : مفتی صدیق بن مفتی شفیق الرحمن قاسمی 


آئے دن ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں بی جی پی کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد مسلسل جرائم کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جارہاہے نفرت پھیلتی جارہی ہے اور ظلم وتشدد قتل وغارت گیری اور بے روزگاری بڑھتی جارہی ہے ہندوستان معاشی  اعتبار سے 30 سال پیچھے جاچکا ہے اس جمھوری ملک میں اب جمھوریت صرف برائے نام ہی باقی رہ گئ کیونکہ ہر کام جمھوریت کے خلاف ہورہا ہے آئین صرف مظلموں اور اقلیتوں پر لاگو کر نے کے لیے رہ گئے ظالموں کے لیے کوئ آئین نہیں اور دہشت گرد ملک بھر میں دہشت گردی پھیلاتے پھر رہے ہیں جنمیں سے اکثر کا تعلق سنگھ بجرنگ دل اور آرایس ایس سے ہے یہ سارے مل کر اقلیتوں یعنی مسلمانوں اور دلتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن نہ انکے خلاف کوئ ایکشن لیا جاتا ہے نہ ہی گرفتاری ہوتی ہے اور نہ ہی انکے خلاف کوئ قانون بنایا جارہا ہے اسکے بر خلاف دوسری طرف مسلم نوجوانوں کے مستقبل کو تباہ وبرباد کرنے کے لیے بے جا الزامات لگا کر جیلوں میں ٹھونسا جا رہا ہے حالانکہ جب تک اصل مجرم کو پکڑ کر سزائیں نہ دی جائے ظلم بڑھتا رہے گا اور ملک میں کبھی بھی امن وامان قائم نہیں ہوسکتا ماب لنچنگ یعنی ہجومی تشدد کے ذریعے اقلیتوں کوظلم وتشدد کا نشانہ بناکر کفریہ نعرے لگوائے جاتے اوراخیر میں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے یہ پہلا ملک ہے جہاں دہشت گرد ایسے واردات کی ویڈیوز بناکر یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے ہیں لیکن حکومت انکے خلاف کوئ کارروائ نہیں کرتی ہےایسا لگتاہے کہ حکومت کی خاموشی رضامندی کا اشارہ ہوـ
ملک کے آئین کی دفعہ نمبر 25 کے مطابق "ہر شہری کو مذہب کی آزادی کاحق حاصل ہے نیز اس دفعہ میں یہ بات بھی ہے کہ مذہبی چیزوں میں حکومت یا کوئ شہری کسی بھی طریقے سے دخل اندازی نہیں کر سکتا ہے  " آخر کیوں قانون کےخلاف کفریہ نعرہ لگانے پر مجبور کیا جارہاہے؟ آخر کیوں طلاق ثلاثہ بل کو منظور کیا گیا ؟ آخر کیوں ظالم کو کھلی چھوٹ دی جارہی ہے؟ کیا یہ قانون کی خلاف ورزی ا ور دہشت گردی نہیں ہے؟
یاد رکھیے!  ہندوستان کی اکثر عوام امن وامان چاہتی ہے لیکن ان سنگھی آر ایس ایس کے گنڈوں نے پورے ملک کے ماحول کو خراب کردیا ہے آخر کب تک یہ چلتا رہے گا؟
بی جی پی کے اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے لےکر اب تک تقریبا 180 بڑے اور33 چھوٹے ہجومی حملے سامنے آچکے ہیں جنمیں سے 50 سے زائد لوگوں کو دن کے اجالے میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اتنے مسلم اور دلت کا خون بہادینے کے باوجود حکومت نے کسی کو گرفتار نہیں کیا اور نہ ہی اسکو روکنے کے لیے کوئ ٹھوس اقدام کیا جبکہ اسکی مذمت اقوام متحدہ سے لیکر دنیا بھر کے لوگوں نے کی اور 49 دانشوروں نے مودی کو خط لکھا پھر بھی حکومت خاموشی سے بیٹھ کر تماشا دیکھ  رہی ہے اسے یہ نہیں معلوم کہ" جس مقتول کا قاتل نا معلوم ہو اسکا قاتل حاکم وقت ہوتا ہے" اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ مسلم نوجوانوں کو کبھی گائے کبھی داعش اور کبھی لو جھاد اور کبھی جیش محمد اور کبھی بھڑکاؤ بیان دینے کے الزام میں گرفتار کرنے کا سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے حالانکہ ہر مرتبہ دس بیس سال کے بعد انھیں ملزموں کو یہ کہ کر چھوڑناپڑتا ہے کہ ثبوت نا کافی ہونے کی بناءپر انھیں باعزت رہا کیا جارہاہے یہ ایک لمحئہ فکریہ اور شرمناک بات ہے عدالت کے لیے اور حکومت اور اسکے اراکین کے لیے کیونکہ بلا وجہ کسی بھی شخص کی زندگی سے کھلواڑ کرنے کی دنیا کا کوئ بھی قانون اجازت نہیں دیتا ہے غرض مسلمانوں اور دلتوں کو ڈرا دھمکا اور دبا کر رکھنے کی طرح طرح سے کوششیں کی جارہی ہیں تاکہ وہ نہ انصاف کے لیے لڑسکے اور نہ ہی اپنے واجب حقوق کی وصولیابی کے لیے کھڑے ہوسکیں  اور اگر خدا نخواستہ کچھ باہمت بہادر جوان اپنے حقوق کی وصولیابی اور ظالموں کے ظلم کا پردہ فاش کر کے انصاف کے لیے آواز اٹھاتے ہیں تو انھیں کسی الزام کے تحت گرفتار کر لیا جاتا ہے اور ایسے صحافیوں کو بھی گرفتار کر لیا جاتا ہے جو حکومت کی ناکامیوں کو سامنے لاکر انکو کٹہرے میں لاکر سوال کر تے ہیں جبکہ دوسری طرف آرایس ایس کے لوگوں  کو تلوار اوربندوق کی ٹرینینگ دی جارہی ہے بی جی پی کے نیتا بھڑکاؤ بیان دیتے رہتے ہیں ایک منظم پلاننگ کے تحت ایک دہشت گردوں کی بھیڑ آتی ہے اور نہتے مسلمانوں پر دھار دار ہتھیار سے حملہ کر دیتی ہے مار مار کر کفریہ کلمات کہنے پر مجبور کرتی ہے ظلم وتشدد کی ویڈیو بناکر خوب وائرل کرتی ہے نہ ہی انھیں دہشت گرد کہا جاتا ہے اور نہ ہی انکی گرفتاری ہوتی ہے ــ
یہ بات ہر ایک کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ "اگر ظلم کو نہ روکا گیا تو ایک دن حکومت اور اسکے اراکین بھی اسکی زد میں آجائیں گے اور تقریبا آج ایسا ہو بھی رہا ہے کہ پولس افسر بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ رہے ہیں "
آئین کے دفعہ نمبر 19 کے مطابق" تقریر اور اظہار رائے کی آزادی کا حق اور امن سے بالکل بھی نہ ڈریں کیونکہ وہ تو ڈرانا چاہتے ہیں تاکہ ڈر کر دب کر وہ اپنے من مانی سے ذہنی غلام بنا کر رکھ سکیں ہمیں کسی بھی حالت میں اسے قبول نہیں کرناہے ـ
ہم ملک کے وفادار ہیں ہمیں ملک سے غدّاری بھی نہیں کرنی ہے  لیکن جو لوگ جمھوریت اور بھائ چاری کے قیام کی راہ میں حائل ہوں اور کسی کے ساتھ تشدد کریں انھیں چھوڑنا بھی نہیں ہے مومن آپس میں ایک دوسرے کے بھائ ہیں اسلیے جب بھی کسی بھائ پر ظلم ہو ہم خاموش تماشائ بن کر نہ بیٹھیں رہیں بلکہ جو کچھ بھی ممکن ہوسکے کریں ـ
اخیر میں ہم حکومت سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جلد ازجلد کوئ قانون بنائے جس سے گنڈہ گردی کو روکا جاسکے اور حکومت سے یہ بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہماری دفعہ نمبر 25 کے مطابق ملی ہوئ مذہبی آزادی  اور دفعہ نمبر 19 کے مطابق ملی ہوئ احتجاجی مظاہرہ اور اظہار رائے کی آزادی کا حق ہم سے نہ چھینے اور مسلمانوں کو بلاوجہ گرفتا نہ کریں جنھیں اب تک گرفتار کیا گیا ہے ان میں سےجو مجرم نہیں ہیں انھیں جلد ازجلد رہا کیا جائے.  نیز عوامی کے اعتماد کو بحال رکھنے کے لیے حق اطلاعات کی ترمیم نہ کریں اور مخصوص فرد کو دہشت گرد قرار دینے والے بل کو ختم کرے ورنہ سیاسی لوگ اسکا غلط فائدہ اٹھا کر اقلیتوں کو بلاوجہ نشانہ بنائیں گے جیسا کہ آج تک دیکھا جارہا ہے اور ان سب کو برقرار رکھنے سے عوام کا اعتماد قانون عدلیہ اور حکومت سے ختم ہو جائے گا پھر جمھوریت کا پورا بیڑا غرق ہوجائےگاـ
 اس لیے ملک کوپورے طور پر جمھوری ملک بنانے کے لیے حکومت ہر ممکن کوشش کرے اور ظلم پر روک لگائے ورنہ اسکا خمیازہ ہر ایک کو بھگتنا پڑے گا پھر افسوس کا کوئ فائدہ نہیں ہوگا ـ

کوئی تبصرے نہیں