افواہوں کےسلسلےمیں ہماراردعمل کیاہو؟
افواہواں کے سلسلے میں ہمارا رد عمل کیا ہو؟
از: مفتی صدیق احمدبن مفتی شفیق الرحمن قاسمی
آج کے اس پر فتن دور میں امت مسلمہ مختلف آزمائشوں اور فتنوں سے دوچار ہے،ایسے حالات میں لوگ بد ظنی غیبت اور افواہوں کو فروغ دے کر اپنی مجلسوں کی زینت بنارہے ہیں، جھوٹے پروپیگنڈے اور غلط سازشوں کی دلدل میں بھی پھنسے ہوئے ہیں، باقاعدہ دل ودماغ کے اندر جھوٹی باتیں غلط نظریات اسلام اور مسلمان کا غلط نقشہ پیش کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے اور سادہ لوح انسان کو بدظن کرکے راہ راست سے ہٹانے کی ناکام کوششیں کی جارہی ہیں، اور اسی سیلاب سے متأثّر ہو کر امت مسلمہ بھی اس طرح کی جھوٹی باتوں تشہیر میں حصہ لیتی ہے، باوجودیکہ شریعت نے اس طرح کی باتوں کی تشہیر اور افواہوں کی نشرو اشاعت پر روک لگانے کی قرآن وحدیث میں جابجا تاکید فرمائ، اور اس کے دینی و دنیوی نقصانات اور وعیدوں کو اُجاگر کیا، چونکہ ان غلط خبروں افواہوں کو صحافی اپنے اخبارات کی زینت بنا کر اور میڈیا خوب بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے، اور ان ہی ذرائع سے خبروں کوحاصل کرکے عام لوگ بلا تحقیق اسکی تشہیر اور نشرو اشاعت میں لگ جاتے ہیں، اور بلاتحقیق ایک دوسرے پر بے جا تنقیدات و اعتراضات کرتے ہیں، حالانکہ اصل معاملہ سے ذرّہ برابر بھی واقفیت نہیں ہوتی، نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ مسلسل اس طرح کی خبروں سے عداوت مذہبی تعصّب اسلام اور مسلمان کے غلط نقشے کو خاص طور سے مسلمانوں کی اور اسلام کی تاریخ کو مسخ کرکے غیر منصفانہ انداز میں پیش کر کے لوگوں کو اسلام اور مسلمان سے بدظن کرنے کی ناکام کوششیں کی جارہی ہیں، اور در پردہ اسلام مخالف خیالات باطل کے غلط افکار ونظریات اور فیشن پرستی کو مہذّب انداز میں پیش کر کے امت مسلمہ کو اسی میں ڈھکیل کر انکے عقائد و نظریات پر زبردست حملہ کیا جا رہا ہے، اورا نکو اسوئہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوسوں دور کیا جارہا ہے اور امت مسلمہ اپنے بھولے پن اور غفلت و بے فکری کی وجہ سے اسی باطل نظریات کے رنگ میں ڈھل کر غیروں کی زبان بولتے ہیں، اور ان ہی کے ہم خیال ہو جاتے ہیں، جس سے باطل کو اور تقویت حاصل ہوتی ہے، اور انکی طرح افواہوں کو پھیلانے میں لگ جاتے ہیں جبکہ بلا تحقیق کسی بات کو پھیلانا جھوٹ بولنے اور غلط باتوں کی تشہیر کرنے کے مرادف ہےـ
جس کے تعلق سے حدیث پاک میں ہےکہ: آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائ بات کو نقل کردے (الحدیث )
ایسی افواہوں سے نمٹنے کےلیے کون سی مؤثّر ترین حکمت عملی اختیار کی جائے؟اور ایسی غلط باتوں کے سلسلے میں ہمارا ردّ عمل کیا ہونا چاہیے؟ نیز قرآنی تعلیمات کیا ہے احادیث نبویہ میں اس سلسلے میں کیا وارد ہوا ہے؟ دیکھیے: اللہ رب العزت کا فرمان ہے اے ایمان والو بد گمانی سے بچو کیونکہ یہ گناہ ہے اور کسی کی ٹوہ میں نہ لگو نہ ہی کسی کی پیٹھ پیچھےاسکی برائ کرو اور قرآن مجید میں غیبت کرنے کو مردار بھائ کے گوشت کھانے کے مرادف قرار دیا ہے( القرآن)
حدیث پاک میں ہے کہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا جھوٹی خبریں اڑانے والے کے عذاب کو کہ: ایک فرشتہ لوہے کی ہنیاں اور آنکڑہ ہاتھ میں لیکر اسکے گلپھڑے میں رکھ کر چیرتا ہوا گدی تک لیجاتا ہے اور ناک کان کو بھی اسی طرح چیرتا ہے ایک دفعہ چیرنے کے بعد جڑ جاتا ہے اور یہ فرشتہ دوبارہ چیر دیتا ہے تسلسل کے ساتھ سلسلہ جاری رہا،( الحدیث)
غیبت اور بلاتحقیق کسی بات کو پھیلانے کی اتنی قباحت اور اتنی بڑی وعید ہے پھر بھی امت مسلمہ اس میں غفلت برت رہی ہے، حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ائے ایمان والو ! جب تمھارے پاس فاسق کوئ خبر لے کر آئے تو اسکی اچھی طرح سے تحقیق کر لو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم جہالت میں غلط فیصلہ کر بیٹھو، پھر بعد میں تمھیں اپنے کیے پر ندامت ہو (القرآن)
غلط باتوں کو پھیلانے کے یوں تو بے شمار نقصانات ہیں، من جملہ ان ہی نقصانات میں سے اعتماد و بھروسہ کا اٹھ جانا دغا بازی کا عام ہوجانا اور عزّت واحترام کا پامال ہوجانا ہے، نیز منافقین کی علامتوں کادل میں رچ بس جانا ہے، جو کہ حدیث میں مذکور ہے کہ منافق جھوٹ بولتا ہے وعدہ خلافی کرتا ہے امانت میں خیانت کرتا ہے( الحدیث)
اللہ تعالی کا فرمان ہے: جھوٹ بولنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے (القرآن)
لہٰذا حد درجہ محتاط رہ کر اپنے آپ کو اس کی تباہی سے بچانے کی پوری کوشش کرنی چاہیےـ
حدیث میں ہے کہ:سچ نجات دیتا ہے اور جھوٹ ھلاک کر دیتا ہے (الحدیث)
چنانچہ ہمارا اس سلسلے میں ردّ عمل یہ ہونا چاہیے کہ اگر ہم صاحب اقتدار ہیں تو ہاتھ سے، ورنہ زبان سے، یا دل میں برا سمجھ کر، اس کذب بیانی پر قابو پا کر اسکو روکنےکی کوشش کریں، اور اس طرح کی خبروں کو جیسے ہی سنیں صاحب معاملہ سے یامعتبر ذرائع سے اسکی تحقیق کر یں، اوراس سلسلے میں اپناجونظریہ یا رائے ہو وہ صاحب معاملہ کے سامنے رکھیں، جو غلطی ہو اس کی نشاندہی صاحب معاملہ کو کریں ـ
نیز بلا تحقیق غلط خبروں کی اشاعت میں ہر گز حصہ نہ لیں، ورنہ وعید کے مستحق ہونگے، اور خبر کوئ ایسی ہو جس کا نہ دینی فائدہ ہو نہ دنیوی اس پر بالکل بھی دھیان نہ دیں، اور نہ ہی ایسی خبر یں کسی کو بھیجنے کی کوشش کریں، کیونکہ یہ ضیاع اوقات کا سبب بنے گی، لہٰذا وقت کو بھی ضائع ہونے سے بچائیے ، چونکہ وقت کی قدر کرنا ازحد ضروری ہے اس وجہ سےکہ گیا وقت ہاتھ آتا نہیں ـ
خلاصئہ کلام یہ ھیکہ غلط خبروں کو پھیلاکر بدگمانی پیدا کر کے تعصّب ونفرت اور جھگڑا پیدا کرنے کا ذریعہ نہ بنیں، ورنہ یہی چیز آپ کی بھی ہلاکت و تباہی کا سبب بنے گی اور دوسروں کو بھی لےڈوبےگی، غلط خبروں میں پڑنےسےحتّٰی الامکان بچنےکی کوشش کریں، ہاں مگر کوئ دینی یا دنیوی فائدہ ان خبروں سے وابستہ ہو تو معتبر ذرائع سے اس کی تحقیق کریں، اورجب تک صحیح بات کھل کر سامنے نہ آجائے آگے بھیجنے کی کوشش نہ کریں، اور باطل نظریا ت و عقائد کو فروغ نہ دیں ، اسوئہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اور دوسرووں کی زندگی کا جزو لاینفک بنا نے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں، نیزاخوّت ومحبت اور بھائ چارگی سے اپنی چند روزہ زندگی کو گزار کراحکامات خداوندی اور ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں زندگی گزاریں، اور کبھی بھی بلاتحقیق کوئ بات نقل نہ کریں، ورنہ اعتماد و بھروسہ کے خاتمے اور فتنہ وفساد تعصّب و نفرت تناؤ اور پریشانی کو وجود میں لانے کا سبب بنے گا،لہٰذا دنیوی زندگی کواعمال صالحہ کے زیو ر سے آراستہ کرنےکی فکر کریں انشاء اللہ کامیابی آپ کے قدم چومے گی ـ
Post a Comment