مسلمانوں کےزوال پذیرہونےکےاسباب اوران کاعلاج
مسلمانوں کےزوال پذیر ہونےکےاسباب اوران کاعلاج
ازقلم: مفتی صدیق احمدبن مفتی شفیق الرحمن قاسمی
آج کے اس پر فتن دور میں جہاں لوگ مختلف پریشانیوں الجھنوں کا سامنا کر رہے ہیں وہیں ہر طرف اختلاف وانتشار کے بادل نے منڈلا کر مزید پریشانیوں کو اوربڑھا وا دیدیا ہے، عقائد پر طرح سے حملے کیے جارہے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ ہر طرف آپسی تنازعات، ایک دوسرے سے حسد، کینہ ، بغض، باہمی تنافر، حرص و لالچ،جہالت، اقتدار کی ہوس، اور مفاد پرستی نے لوگوں کو ایسا اندھا کردیا ہے کہ حلال حرام، جائز ناجائز سے قطع نظر کرکے شریعت کے حدود سے تجاوز کر تے ہوئے نظر آرہے ہیں، اسی پر بس نہیں کیا ،بلکہ ایک دوسری کی ٹانگیں کھینچ کر گرانے کی کوشش کرنا، اپنی کمی اور کوتاہیوں کو دیکھنے کےبجائے دوسروں پر طعن وتشنیع کرنا،آپسی جھگڑے کو حل نہ کر کے کوٹ کچہری کے چکر لگاکر مال کو ضائع کرنا گویا کہ عادت سی بن گئ ہےـ
حالاں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کا بھائ قرار دیاہے، ( الحدیث)
لیکن لوگوں کا حال تو یہ ہیکہ جدھر کی ہوا چلی ادھر جاکر مد مقابل کو گندی گالیاں دیتے ہیں، حتی کہ آپس میں ہی جان لیوا حملہ کرنے پر اتر آتے ہیں ـ
غرض اس وقت مسلمان بڑے کسم پرسی کے عالم میں ہیں،اور ہر طرف سے ظلم کی چکی میں پیسے جارہے ہیں، ان تمام چیزوں کا اسلام دشمن طاقتیں غلط فائدہ اٹھا کر خوشیاں مناتی ہیں، وہ صدیوں سے یہی کرتے آرہی ہے کہ پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو، باقاعدہ اس کے لیے انھوں نے کچھ کرایہ کے لوگ بھی چھوڑ رکھے ہیں جو گا ہے بگاہے اسلا م اور مسلمانوں کے خلاف شوشہ چھوڑتے رہتے ہیں ـ
اگر ان سب کو جان کر بھی ہم اپنی پرانی ہی روش پر چلتے رہیں توگویاکہ ایک گونہ ہم ان اسلام دشمن طاقتوں کے معاون ومددگار بن کر انکا ساتھ دے رہے ہیں، اور ہم سے بڑا بےوقوف کوئ نہ ہوگاـ
اس کا نقصان یہ بھی ہو رہا ہے کہ دیگر قوموں کے ذہن ودماغ میں اسلام اور مسلمان کا غلط تصور اور برا نقشہ بیٹھتا جا رہاہے، اور آئے دن مسلمان ہر اعتبار سے خواہ سیاسی ہو یااقتصادی یا سماجی پیچھے ہوتے جارہے ہیں، آخر اتنی قلیل مدت میں اتنا بڑا انقلاب کیسے آگیا؟ اسکا سبب کیا ہے؟ اور اس کا علاج کیا ہے؟
ان پہلو ؤں پر غور کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمان معاشرتی اورازدواجی زندگی، اصول شرع کا پابند رہ کر شریعت کے اصول و ضوابط اور قوانین کی پوری پاسداری کرتے ہوئے قرآنی تعلیمات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کونمونہ بنا کر نہیں گزار رہے ہیں، با وجودیکہ قرآن مقدس میں اللہ تعالی نے فرمایا کہ: تمھارے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترین نمونہ ہے، (سورءہ احزاب)
اوراپنے معاشرتی ازدواجی زندگی میں مغربی تہذیب کو فروغ دے رہے ہیں ـ
یاد رہے ! جب خواص میں گڑ بڑ ہو تاہے تو زوال آتا ہے، اس لیے سب سے پہلے انہیں اپنا رخ صحیح کرنا ہوگا، اور ماضی سے رشتہ جوڑ کر اپنے ذہن کو کشادہ رکھتے ہوئے احساس ذمہ داری پیدا کرنا ہوگا، یہ بات بھی سامنے رہے کہ صلاحیت کے ساتھ عزم وہمت حوصلہ اور جرأت نہ ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا، اس لیے یہ بھی ضروری ہے، نکیر کیا جائے فی نفسہ یہ چیز بری نہیں ہے، لیکن اچھے اخلاق اوربہترین انداز سے، تاکہ لوگ بدظن نہ ہوجائے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی طریقہ رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن ناطق ہےکہ: یقینا آپ عظیم اخلاق پر ہیں،( القلم)
اور لوگوں کو حکمت عملی اوراچھی بات سے سیدھے راستے کی دعوت دی جائےـ
اللہ تعالی نے مسلمانوں کو دستور حیات" قرآن مجید "دیا ہے جسمیں ہر چیز کی رہنمائ موجودہے، اور اسکی تشریح وتفسیر کے لیے "احادیث نبویہ" کا ذخیرہ عطاءفرمایا ، اور اسکو عملی جامہ پہنانے کے لیے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی اور رسول بنا کر مبعوث فرمایا جن کی پوری زندگی نمونہ ہےـ چنانچہ اللہ تعالی کافرمان ہے: اللہ اور اس کے رسول کا خوشی سی کہنامانو! اور آپس میں مت جھگڑو ورنہ تم ہمت ہار جاؤگے اور تمھاری ہوا اکھڑجائے گی، اور صبر کرو! یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، (الانفال)
اللہ نے یہ بھی فرمایا: یقینا اللہ بدلتانہیں اس حالت کو جو کسی قوم کے ساتھ ہے یہاں تک کہ وہ خود نہ بد لیں اسکو جو ان کے اندرون میں ہےـ (الرعد)
یعنی اللہ کسی بھی قوم کے حالات کو نہیں بدلتے ہیں جب تک کہ وہ خود اپنے حالات کو بدلنے کی فکر نہ کرے، اس لیے ہمیں احساس پیدا کر کے فکرمند ہونا ازحد ضروری ہےـ
اس بات کو ذہن میں بٹھا لیجیےکہ نفرتوں اور تنازعات کی خلیج کو دور کیا جاسکتاہے، عداوت وتشاجرات کی دیوار کو منہدم کیا جاسکتا ہے، بشر طیکہ ہم قرآن وحدیث کو مضبوطی سے تھام لیں، مزید اس میں تقویت پیدا کرنے کے لیے صلہ رحمی کا بھی سہارا لینا کار گر اور مفید ثابت ہوگا ـ
جیساکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسکے ساتھ صلہ رحمی کرو جو آپکے ساتھ رشتہ توڑے ظالموں کو معاف کردو اور انکے ساتھ اچھا سلوک کرو جو آپکے ساتھ برا سلوک کرےـ(الحدیث)
اس کے فوائد بے شمار ہیں جن میں سرفہرست آپس کی محبت میں بڑھوتری کا ہونا ہےـ
یاد رکھیے اللہ تعالی نے دنیا کے نظام کو تقسیم کار کابنایا ہےاگر کوئ یہ سوچے کہ ہمیں ہی سب کچھ کرنا چاہیے یہ نہیں ہوگا یہ تو انبیاء علیہم السلام کی خصوصیت تھی، اسلیے ہر ایک الگ الگ شعبوں میں لگ جائے آپس میں ایک دوسرے کا ضرورت کے وقت تعاون کرتے رہے دین قائم ودائم رہے گا ان شاءاللہ ـ
نیز حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نصیحت فرمائ جس کا مفہوم یہ ہے کہ :
عقلمند شخص وہ ہے جو اپنی آخرت کی زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے مو ت کے بعد کی فکر کرے، اسکے لیے عمل کرے، بے وقوف ہے وہ شخص جو خواہشات نفس کے پیچھے بھاگے اور اللہ سے بڑےبڑے آرزو اور تمنّٰی باندھے رکھے، ( الحدیث)
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: حرام چیزوں سے بچو! لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار بن جاؤگےـ(الحدیث)
ان تمام باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت ہے اس بات کہ کہ ہم اپنی کمی کوتاہی ناکامی اور زوال کے اسباب پر غور کر کے اپنے اعتماد کو جلد از جلد بحال کریں اور معاشرہ میں پھیلی ہوئ تمام برائیوں حسد، کینہ، بغض وغیرہ دیگر تمام امراض کا قلع قمع کر کے انکو ختم کر یں، اور امت کی صحیح رہنمائ کر کے جدید نسل کی دینی تربیت کریں، ان کو ہمت وحوصلہ کے ساتھ اللہ کی ذات سے امید رکھتے ہوئے اچھے اخلاق اور محبت وشفقت سے صحیح رخ پر لےکر چلیں، توبہ واستغفار کر کے صدقہ وخیرات کریں، اپنی اور قوم کی آخرت کی فکر کریں، قرآنی تعلیمات کو مضبوطی سے تھامے رکھیں،آپسی اختلافات آپسی تنازعات کو بڑھاوانہ دیکر سمجھوتہ کر کے مل جل کرحل کرلیں، باہم اتحاد واتفاق کو قائم ودائم رکھیں، عقائد کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں، اوردوبارہ ماضی کی تاریخ کو دہرائیں، انشاء اللہ ہمارا مستقبل روشن وتابناک ہوگا اور ہماری قوم بھی فلاح وکامرانی کے خوش کن نغمے گائے گی ـ
بہت بہترین مضمون
جواب دیںحذف کریں