بھارت میں دم توڑتی جمہوریت اورہماری ذمہ داری
بھارت میں دم توڑتی جمھوریت اور ہماری ذمہ داری
ازقلم : مفتی صدیق احمدبن مفتی شفیق الرحمن قاسمی
آپ حضرات بخوبی واقف ہیں کہ 15 اگست 1947 ء کو بے شمارعلمائے کرام نے ملک کے لیے اپنی جانوں کانذرانہ پیش کر کے اس ملک کو برطانوی تسلط سے آزاد کرایا،اب ملک چلانے کے لیے آئین وقوانین اور دستور کی ضرورت تھی ـ
چنانچہ اس کا نفاذ 26 جنوری 1950 ء میں ہوا، اور 42 ویں ترمیم کے رو سے ہندوستان کو سیکولر اسٹیٹ کہا گیا ہے،اسی کاجشن 26 جنوری کو 74سال سے منایا جارہا ہے،سیکولر کامعنی جمھوری ملک، اور جمھوریت کامطلب یہ ہے کہ" عوام کی حکومت عوام کے ذریعے عوام کی خاطر"اب اس جمھوری نظام کی رو سے دستور ہند کی دفعہ 114 اور 115کے تحت ہر ہندوستانی شہری کو قانون کی نگاہ میں مساوی رکھا گیا ہےـ
نیز ہر شہری کو آزادئ رائے،آزادئ خیال، آزادئ مذہب حاصل ہے، اور حکومت عوام کی کثرت رائے سے بنتی ہے، اور اس جمھوریت کو باقی رکھنے کے لیے تین بڑی طاقتیں ہیں ـ
1 انتخابات 2 عدلیہ 3 میڈیا ـ
دستور ہند سے جو حقوق ہندوستانی شہری کو دیے گئے ہیں جسے آئین کے نام سے جانا جاتا ہے اسکا خلاصہ یہ ہے:
1حق آزادی ـ
2مذہب کی آزادی ـ
3ثقافتی اور تعلیمی حقوق ـ
4جائداد کا حق ـ
5دستوری چارہ جوئ کا حق ـ
6استحصال سے حفاظت کاحق ـ
7حق مساوات ـ
لیکن افسوس صد افسوس!!!
آج ان سارے آئین و قوانین کا جنازہ نکل چکا ہے، یہ فقط رسمی رہ گئے ہیں،مسلمانوں کے شریعت پر چلنے کے اختیار کو چھین کر اُن کو ختم کرنے کی صرف سازش ہی نہیں، بلکہ عملی طور پر ثبوت بھی پیش کیا جا رہا ہے، اور دیگر اقلیتوں کو بھی ظلم وتشدد کانشانہ بنایا جارہا ہےـ
یاد رکھنا چاہیے کہ کسی بھی جمھوری نظام کی کامیابی کاراز اس بات میں مضمر ہے کہ اس کے سایہ میں سانس لینے والے شہریوں کے ساتھ عدل وانصاف برابری اورمساوات کامعاملہ ہو،امن وسکون کاماحول ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کو آئین کے مطابق لےکر چلا جائے، اور آئین نے جو حقوق جو اختیارات دیے ہیں ان کو ہڑپ نہ کیا جائے،کیونکہ ظلم کی حکومت زیادہ دن نہیں چلتی ـ
لیکن آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہندوستان میں جمھوریت کا جو تصور پیش کیاگیا تھااس کو روند دیا گیا ہے،حتی کہ عدالت عظمی کے ججز چیخنے پرمجبورہوگئے کہ جمھوریت خطرے میں پڑچکی ہے، اب تو سوفسطائ طاقتیں اور شدّت پسند عناصر جمھوریت کے تصوّر کو بھی ختم کرنا چاہتی ہیں،اور جو سیکولرزم کو باقی رکھنے کے لیے تین بڑی طاقتیں ہیں ان کا بھی استعمال جمھوری نظام کے نفاذ کے بجائےبر عکس ہونے لگا ہے، امن وسکون کے بجائے ملک میں خوف ہراس اور دہشت کا ماحول بنا کر اقلیتوں کوزیادتی کا نشانہ بناکر دبایا جارہا ہے، تاکہ وہ اپنے حقوق کی وصولیابی کے لیے نہ اٹھ سکیں، آئے دن دستور ہند کے دیے گئے حقوق کو ہم سے چھینا جارہا ہے، سمجھ نہیں آتا کس سے شکوہ کریں؟کس سے امید رکھیں؟اور کس پر بھروسہ کریں؟
میں یہ نہیں کہتا کہ جشن مت مناؤ، بلکہ خوب اچھے سے مناؤ، لیکن کیا صرف سال میں ایک دن رسمی طورپر جشن منا لینے سے جمھوری نظام قائم ہوجائے گا؟ غور کرنے کامقام ہے!!
قارئین : یہ 26 جنوری کا دن ہمیں جھنجھوڑ کر کہتاہےکہ یاد کرو اس وقت کو کہ جس کے نتیجے میں اس آئین کانفاذ عمل میں آیا، اورعلماء کرام نے اس ملک کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کو قربان کردیا تھا،اپنے بچوں کو یتیم کردیا تھا،اور نہ جانے کتنی ساری قربانیاں پیش کی، لیکن یہ دیکھ کر بڑا دُکھ ہوتاہےکہ آج ان ہی کی نسلوں کو اس ملک میں دہشت گرد اور غدّاروطن کہ کر پکارا جارہا ہے،اور اسی پر بس نہیں کیا جارہا ہے، بلکہ انکے بے قصورجوانوں کو جھوٹا پروپیگنڈا کرکے غلط اور بے بنیادالزامات لگا کر کبھی لو جھاد، تو کبھی داعش، کے نام پراور کبھی گائےکےنام پر، نہ جانے کس کس بہانے سے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل کر انکی زندگی کے قیمتی اوقات سے کھلواڑ کیا جارہا ہے،اور جو فسطائ طاقتیں جو شدّ ت پسند عناصر کُھلے بازاروں میں زہر اُگلتے دندناتے پھر رہے ہیں، اورجو اصلی مجرم ہیں، وہ عیش وآرام سے سیرو تفریح کر رہے ہیں ،انہیں گرفتار کرنے کے بجائے نظر انداز کیا جارہا ہے، کیا یہی جمھوریت ہے؟
جمھوریت تو ہر ایک کو مساوی اور برابری کا سبق دیتی ہے، آئین بھی توباہمی مساوات اوربرابری کا حق دیتاہے، پھر بھی کیوں اسمیں غفلت ہورہی ہے؟
ایسے حالات میں ملک کے باشندوں کی بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے کہ
1باہمی تمام مسلکی اختلافات کوختم کر کے اخوّت ومحبت اور بھائ چارگی کے ساتھ اپنے حقوق کی وصولیابی کے لیے کوشاں ہوں ـ
2 امّت کے سیاسی شعور کو بیدار کریں،
3دستور وآئین سے قوم کو واقف کرائیں ـ
4حق رائے دہی کا استعمال کریں ـ
5 سیکولر پارٹی کو ووٹ دیں ـ
6 اور ملک کی گنگا جمنا تہذیب کی بقاء کی فکر کریں ـ
اور حکومت بھی 26 جنوری 1950ءکو جس آئین کا نفاذ ہوا تھا اس کو سامنے رکھ کرملک کو لیکر چلے، اور تمام شہریوں کوآئین میں محفوظ تمام حقوق مکمل دیے جائیں ـ
نیز ہندوستان کا ہر ایک باشندہ خواہ سرکاری کارندہ ہو یاعام رعایا اپنی اپنی مفوّضہ ذمّہ داریوں کو امانت داری کے ساتھ نبھا تے ہوئے عدل وانصاف مساوات اوربرابری کا معاملہ کریں ـ نیزاخوّت ومحبت اور بھائ چارگی سے مل جل کر رواداری کے ساتھ ملک میں بلا خوف وخطر چین اور سکون کے ساتھ رہیں گے تو ملک ترقّی کرے گا، اور شر پسندوں سے محفوظ رہے گا، اس کے برعکس صورت بھارت کے لیے اور بھارت کے باشندں کے لیے انتہائ خطرناک ثابت ہوسکتی ہےـ
لہٰذا نئ حکمت عملی اختیار کر کے ملک کی بقاء اور حفاظت کے لیے کوشش کرنے سے بالکل بھی دریغ نہ کریں ـ
اورایسے حالات میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے اس کو آپ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جائزہ لیجیے تو پتہ چلے گا کہ مسلمانوں کی اقلّیت اور کفر کفاروں کی کثرت تھی مکہ میں تو مکی زندگی میں تین کاموں کو بنیاد بنایا جو کامیابی کا سبب بنا 1 )وحدت 2) دعوت 3 )خدمت ـ
ہندوستانی مسلمان اگر ان تینوں باتوں پر عمل کر لے تو ساری مشکلات و مصائب دور ہو جائیں گے، ان شاء اللہ ـ
امید ہے کہ میری یہ تحریر آپ تمام ہی حضرات کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی ـ
آپکی دعاؤں اور مفید مشوروں کا طالب ہوں ـ
Post a Comment