حلیمہ کی شرافت رنگ لائی - Siddiqahmad.com

حلیمہ کی شرافت رنگ لائی

حلیمہ کی شرافت رنگ لائ

از: مفتی صدیق احمد بن مفتی شفیق الرحمن قاسمی

ایک دن ٹھنڈی کے موسم میں عثمان ایک موٹا سا کمبل اوڑھے ٹھٹھڑتے ہوئے کلاس میں آیا، آج استاذ صاحب نہیں آئے تھے اسلیے بچوں نے سوچا چلو کیوں نہ ہم آپس میں مل کر اچھی اچھی  باتیں کریں، کہ وقت بھی کام میں آجائے اور تھوڑی تفریح بھی ہوجائےـ
چنانچہ عثمان کے ساتھی متفق ہوگئے، اب ہر ایک نے اپنے اپنے اعتبار سے اہم موضوع پیش کیا ، لیکن سب نے ابھی ہی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تھا، اور آئے دن عالمہ لڑکی سے شادی کے متعلق بہت سی اِدھر اُدھر کی باتیں سنتے آرہے تھے ،یہاں تک کہ سب کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ یار عالمہ سے شادی نہیں کرنی چاہیےـ
 لیکن عثمان دیندارتھا، اسکے گھر والے بھی بہت ہی نیک اعلی گھرانے سے تھے، علماء کو بے پناہ عزت دیتے تھے، اسلیے ان کا اثر انکی اولاد میں بھی پایا جاتا تھا، لہٰذا سب کی باتیں سن کر وہ غصہ میں آگیااور کہنے لگا ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک لڑکی عالمہ ہوجائے، خوب پڑھ لےاور اتناپڑھنے کے باوجود اپنے شوہر کے ساتھ نارواں سلوک کرے یہ تو میں نہیں مانتا،چلو آج اسی موضوع کولے لیتے ہیں، اور تجزیہ کرتے ہیں کس حد تک یہ بات صحیح ہے ؟
چنانچہ عثمان نے کہا:کہ ایسے کیسے ہم اس پر بات کرسکتے ہیں جبکہ ہم نے تجربہ بھی نہیں کیا ہے ،لیکن میرا ماننا ہے کہ نہیں عالمہ لڑکی ایسی نہیں ہوسکتی کہ بالکل بھی اسے شوہر کا خیال نہ ہو، عزت واحترام نہ کرے، پردہ نہ کر ے، اور آپس میں محبت کےساتھ بھی نہ رہے.
عثمان  نے کہا: کہ میں تو عالمہ لڑکی سے ہی شادی کروں گا، اور اسنے اسکےفوائد گنائے.
زید نے کہا:کہ نہیں میں تو صرف اسکول پڑھی ہوئ لڑکی سے شادی کروں گا، وہ اسٹینڈر شوٹ بوٹ میں رہے گی اور ہماری مست عیش کی زندگی گزرے گی، اور اسکے بہت سے فوائد گنانے لگاـ 
ناظم کہنے لگا: کہ نہیں میں تو بس ایسی لڑکی چاہتا ہوں جسکے والدین نے اچھی تربیت کی ہو اور جاہلہ ہو، کیونکہ پڑھی لکھی لڑکیاں زیادہ زبان درازی کرتی ہیں اور اسنے اسکے فوائد گنانا شروع کردیا.
اب بچا ریحان: اسنے کہا کہ میں تو بس جاھلہ سے شادی کروں گا، چاہے تربیت یافتہ ہو یا نہ ہو ،مجھے تو بس خوبصورت لڑکی چاہیے اور اسکا باپ مالدار ہونا چاہیے بس،تاکہ مجھے کچھ ٹینشن ہی نہ رہے،بس میں اپنی پوری لائف عیش کی کاٹوں اور ایسی لڑکیوں کے فوئد گنانا شروع کردیاـ
اب چونکہ ہر ایک اپنے اپنے موقف پر اچھی طرح ڈٹے ہوئے تھے اسلیے معاملہ کچھ بھی سمجھ میں نہ آسکا، سب کے لیے فیصلہ دشوار ہوگیا کہ کس میں فائدہ ہے اور کس میں نقصان ہے ؟
عثمان نے کہا: کہ میں نے تمھیں پہلے ہی کہدیا تھا کہ، ہم لوگوں نے تو صرف سنا تھا تجربہ تھوڑی کیا ہے، کہ ہم پورے اعتماد و یقین کے ساتھ کچھ کہ سکیں، ہوسکتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک غلط ثابت ہو ،چلو ایک کام کرتے ہیں ،ہم چاروں وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے اپنے بیان کردہ وصف کی لڑکیوں سے شادی کریں گے اور ایک کاغذ پر لکھ لیتے ہیں ،شادی کے پانچ سال کے بعد ہم سب ایک جگہ اکٹھا ہونگے ،پھر اس موضوع پر اپنے تجربے کی روشنی میں بات کریں گے، دیکھتے ہیں کون صحیح نکلتا ہے سب دوست متفق ہوگئے ـ
چنانچہ ہر ایک نے اپنے پسند کی لڑکیوں سے شادی رچائ، اور ایک دوسری کی شادی میں شریک ہوئے، شادی کے بعد سب الگ الگ جگہ اپنے اپنے کام میں لگ گئے،کبھی آپس میں بات کرلیا کرتے تھے ،دن اسی طرح گزرتے گئے،یہاں تک کہ شادی کے تین سال ہی گزرچکے تھے، تمام دوست صاحب اولاد ہوگئے تھے،عثمان ایک دن اسکول کی کاپیوں کو الٹ پلٹ کر رہا تھا ،کہ اچانک اسے وہ کا غذ ملا جس پر انکا وعدہ لکھا ہوا تھا ،عثمان نے سوچا چلو اچھا موقع ہے، دوستوں کی دعوت بھی ہوجائے گی اور ضمنا یہ کام بھی ہوجائے گا، پہلے ہی سے میں ان سب کو تاریخ متعین کر کے بتا دیتا ہوں، پھر ہم سب ایک جگہ اکٹھا ہونگےـ
چنانچہ وقت ہوا کی روانی کے ساتھ بڑھتا چلاگیا موسم سرما آتا اور چلا جاتااسی طرح ساڑھے چار سال گزر گئے، عثمان نے  دوستوں کو فون کرکے اپنے ارادے کا اظہار کیا، اور وہ وعدہ یاد دلا یا ،سب دوست بخوشی تیار ہوگئے ،صبح اور شام کی دعوت تھی اور رات میں پوری رات بیٹھ کر بات کرنا تھاـ
عثمان تیاری کرتا رہا ،رنگ برنگ کے پکوان تیار کرائے اور مختلف قسم کے کھانے الگ الگ طرح کی مٹھائیاں تیار کرائ ،غرض ہر چیز اس دستر خوان پر رکھدیا ،گویاکہ ایک شاہی دستر خوان تیار ہو رہا ہوـ
دن گزرتا گیا ہر ایک اس خوشی والے دن کا ایسے انتظار کرنے لگے جیسے کہ عید کا انتظار کرتے ہیں ـ
بالآخر چند مہینوں کے بعد وہ دن آہی گیا، اور ساری تیاریاں مکمل ہوچکی تھی ،صبح کے دس بج گئے،  لیکن اب تک کوئ بھی نہیں پہنچا، اب عثمان پریشان ہوا، فون لگا یا تو کافی دیر تک تو فون ہی نہیں لگا، دو گھنٹے کے بعد فون لگا ،تو پوچھا کہاں پہنچے؟ اورکتنا وقت لگے گا؟ دوستوں نے جواب دیا کیاکریں؟ ٹرین دوگھنٹے  لیٹ ہوگئ تھی ،اسوجہ تاخیر ہوگئ، بہرحال اب ہم اسٹیشن سے نکل چکے ہیں ،آدھے گھنٹے میں پہنچ جائیں گےـ
عثمان ادھر اب بڑی بے تابی سے انتظار کرنے لگا، اور اپنے بھائی والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ انکے استقبال کے لیے کھڑا ہوگیا، ہر آنے جانے والے گاڑی کی طرف لپکتا ،کہ کہیں ہمارے دوست و احباب اسمیں تو نہیں؟لیکن بے چارہ ہمیشہ مایوسی سے واپس آجاتا ،بالآخر سات گاڑی گزرنے کے بعد ایک لال رنگ کی چمچماتی ہوئ گاڑی آئی ،جودیکھنے میں بڑی ہی خوبصورت تھی،اب تو اسے یقین ہوگیا کہ اسی میں ہونگے، چنانچہ دور ہی سے اشارہ کرتے ہوئے سلام کیا، اور  استقبال کے لیے دوستوں کی طرف لپکاـ
وہ گاڑی سے اتر گئے ، عثمان نے معانقہ کیا ،اور دیگر رشتہ داروں نے بھی معانقہ کیا، اور گھر کے اندر لے جاکر بٹھایا، پہلے کولڈرنگ پیش کیا اسکے بعد کھانے کا دسترخوان لگایا، جسمیں مختلف قسم کے کھانے تھے، اب سب بڑی خوشی سے کھانے اور باتیں کرنے رہے تھےاور اپنے بچپن کی یادیں تازہ کر رہے تھے ،کھانا کھانے کے بعد ایک بڑے ہی خوبصورت بنگلے میں آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے، عثمان بھی سوگیا، یہاں تک کہ عصر کا وقت ہوگیا، اب عثمان نے سب کو اٹھایا ،سب نے نماز پڑھی اور ایک خوبصورت باغیچے میں تفریح کے لیے نکل پڑے ،جہاں مختلف قسم کے پھول اور بہت سے ایسے پودے لگے ہوئے تھے ،جو نہایت ہی قیمتی اور خوبصورت دکھ رہے تھے ،جنھوں نے باغیچے کے حسن کو دوبالا کردیا تھا اور بہت ہی عمدہ خوشبو سے لطف اندوز ہورہے تھےـ
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا سورج کی چمک ماند پڑتی گئ ،ابھی تھوڑا ہی دیر ہوئ تھی کہ سورج نظروں سے اوجھل ہوگیا ،اور ہر طرف سے اذان کی صدا بلند ہونے لگی، ہم لوگ وضو کرکے نماز کے لیے تیار ہوگئے ،جماعت کا وقت ہوچکا تھا، امام صاحب نے بڑے خوبصورت انداز میں قرآن کریم کی تلاوت کی، نماز پوری ہوئی، سنن ونوافل سے فراغت کے بعد عثمان نے اپنے دیگر دوست واحباب سے متعارف کرایا، پھر واپس گھر کارخ کیا ،گھر پر ناشتہ کا اہتمام کیا گیا ،جسمیں کاجو  بادام اور مختلف قسم کے میوہ جات تھیں، اور چائے کادور چلا پھر بیٹھ کر کچھ باتیں بھی ہوئ، دیکھتے ہی دیکھتے عشاء کی اذان کونجنے لگی، ہر کوئ مسجد کی طرف دوڑ رہا تھا، ہم لوگوں نے بھی جلد ہی وضو کرکے مسجد کا رخ کیا ،نماز کے بعد سنن ونوافل پڑھنے میں مشغول ہوگئیں، پھر گھر کی طرف چل پڑے جیسے گھر پہنچے تو دیکھا کہ دسترخوان سجاہواہے جس پر  ہر قسم کے کھانے سجے ہوئے تھے، ایسا لگ رہا تھا گویا کسی شہزادے کی شادی ہوـ
عثمان کھانا کھانے کے بعد اپنےاحباب سے بات چیت کے لیے بیٹھنے ہی والا تھا کہ اچانک "حلیمہ" کاپاؤں پھسل گیااور وہ گرگئ ،جسکی وجہ سے کافی چوٹ آئ، عثمان نے دوستوں کو الوداع کہا ،اور جلد ہی اسے اسپتال لیکر گیا، علاج ومعالجہ ہوا ڈاکٹر نے کہا کہ: انہیں سخت آرام کی ضرورت ہے،عثمان رات میں یہیں ٹہر گیااور رات بھر جاگتا رہا، صبح تک حلیمہ کو کچھ افاقہ ہوا،لیکن اب بھی اسے ہسپتال میں زیر علاج رکھا گیاتھا، اور عثمان کے دوستوں کی واپسی کا وقت قریب ہورہا تھا ،ٹرین آنے کو تیار تھی ،عثمان نے اپنے دوستوں کو چھلکتے آنسوؤں کے ساتھ الوادع کہااور دعاء دے کر رخصت کردیا، ٹرین آگئ دوست واحباب بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے، ادھر دو تین دن گزرجانے کے بعد حلیمہ گھر آچکی تھی ، پھر عثمان خوشی خوشی زندگی گزارنے لگا موسم خزاں آتا اور چلا جاتا موسم بہار آتا وہ بھی گزر جاتا لیکن دوستوں کی یاد کبھی پیچھا نہیں چھورڑ رہی تھی، دل بہلانے کے لیے عثمان فون پر  بات کرلیتا تھا، ایک دن حلیمہ گھر کے سامان کو سجا رہی تھی تو اسکی نظر وہاں رکھے ایک کاغذ پر پڑی جسمیں دوستوں سے کیا  ہوا وعدہ لکھا ہوا تھا، اس نے وہ کاغذ لاکر عثمان کو دیا اور دوستوں کی دوبارہ دعوت رکھنے کی خواہش ظاہر کی، عثمان نے اسکی بات مان لی اور تیار ہوگیا، ابھی پہلی دعوت کے دوسال گزرے تھے، دوستوں سے بات کیا ،دوستوں نے اتفاق کیا اور کچھ ہی دنوں میں آنے کو تیار ہوگئے،لیکن عثمان نے کہا:اب کی بار بیوی بچوں کو بھی  ساتھ میں لیکر آئیے، دوستوں نے اسے بھی قبول کرلیا، چونکہ وہ عثمان کی بات نہیں کاٹتے تھے، عثمان نے اب بھی پہلے ہی جیسا بلکہ اس سے اور بھی زیادہ اہتمام کیا، اور یہ طے کیا کہ پہلی فرصت میں ہم اپنے وعدہ کے مطابق بات چیت کریں گے، عثمان دوبارہ بے صبری سے انکی آمد کا انتظار کرنے لگا جلد ہی وہ دن بھی آگیا،صبح ہوگئ، تمام تیاریاں مکمل ہوچکی تھی، ٹرین کا وقت ہورہا تھا، عثمان نے فون کیا دوست واحباب ٹرین میں بیٹھ چکے تھے، اب کچھ ہی گھنٹوں میں پہنچنے  والے تھے، عثمان اور اسکے گھر والوں کے ساتھ ساتھ حسینہ بھی بڑی شدت سے انتظار کر رہی تھی، جلد ہی دوست واحباب کا قافلہ اسٹیشن پڑ اتر گیا ، اور اب وہاں گاڑی کی تلاش میں باہر نکلا تو دیکھا کہ عثمان دو گاڑی لیکر پہلے سے پہنچا ہوا ہے ،عثمان نے بڑا شاندار استقبال کیا اور ان سب کو گاڑی میں بٹھا کر جلد ہی گھر لے آیا ،اِدھر والدین انتظار میں تھے ،انھوں نے جیسے ہی دیکھا آگے بڑھ کر انکا پُر تپاک استقبال کیا، اور مصافحہ معانقہ کے بعد ناشتے کے لیے بیٹھ گئے ،ادھر حلیمہ نے ان عورتوں کو خوش آمدید کہا، اور ناشتہ کادستر خوان پہلے ہی سے لگا ہوا تھا، سب ناشتے کے لیے بیٹھ گئے، ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئ تھی کہ کھانے کا دستر خوان بھی لگ گیا ،جوپہلے سے کہیں زیادہ رنگ برنگ کےپکون سے لدا ہوا تھا، سب نے پیٹ بھر کر کھایا، عثمان کے دوست تو آرام کرنے لگے ،حلیمہ ان سب کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگی اور تمام بچے ایک ساتھ باغیچے میں کھیلنے لگے، حلیمہ اتنی شریف لڑکی تھی کہ کوئ بھی اسے دیکھتا فورامتأثر ہوجایا کرتا تھا، لہٰذا عثمان کے دوستوں کی بیویاں بھی بہت متأثر ہوئ اور رشک کرنے لگی، اور اسکی ہر بات کو غور سے سنتی، حلیمہ نے کہا چلیے اپنی اپنی آپ بیتی سناتے ہیں ،آپ لوگوں کے دن کیسے گزر رہے ہیں؟ سب نے دبے لہجے میں کہا چھوڑو دوسری باتیں کریں، تو حلیمہ نے سوچا موقعہ اچھا ہے اسلامیات کے متعلق کچھ پوچھ لیتے ہیں، حلیمہ یہ سوچ ہی رہی تھی اچانک ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا، حلیمہ نے سب کو ایک ایک مصلی دیا اور وضو خانہ کی نشاندہی کرکے وضو کے لیے چلی گئ، ان عورتوں نے بھی بادل ناخواستہ وضو کیا، جیسے ہی وضو کرکے یہ واپس آئیں ،اچانک حلیمہ کی نظر انکے اعضائے وضو پرپڑی جسمیں سے اکثر سوکھے تھے، حلیمہ نے فورا ان سب سے کہا کہ، چلیے میرے ساتھ مجھے دیکھیے میں جیسے وضو کروں اسی طرح آپ بھی وضو کیجیے، سب نے اسی طرح کیا، اب نماز کی باری آئ تو انھیں نماز بھی صحیح سے نہیں آتی تھی، ان عورتوں نے پہلے ہی کہدیا حلیمہ ہمیں نماز کا طریقہ سکھادو ،حلیمہ نے نماز کا طریقہ بتایا، ان عورتوں نے نماز سے فراغت کے بعد حلیمہ کا شکریہ ادا کیا،اب حلیمہ سوچی جب روزانہ کی عبادت کایہ حال ہے تب تو خون والے دنوں کا حال تو اور برا ہوگا، بات کرتے کرتے ان عورتوں سے پوچھ ہی لیا کہ تم خون والے ایام یعنی حالت حیض میں کیا کرتی ہو؟ سب نے بلاجھجھک جواب دیا کہ ہم خون کو دھو لیتے ہیں اور پھر ایسے ہی کبھی کبھی وضو کرکے نماز قرآن پڑھ لیتے ہیں، حلیمہ نے سمجھا یا کہ خون کے ایام میں نماز اور قرآن نہیں پڑھ سکتے ہیں، اوردیگر دین کی موٹی موٹی باتیں بتائ ـ
ادھر عثمان اپنے دوستوں کے ساتھ باغیچے میں بیٹھا ہوا تھا،عثمان نے کہا کہ چلو اب ہم وہ وعدہ پورا کرلیتے ہیں، دوستوں نے کہا ٹھیک ہے، لیکن سب کا یہی مطالبہ تھا کہ عثمان پہلے بتائے گا،عثمان نے کہا چلو کوئ بات نہیں میں ہی شروع کرتا ہوں ـ
عثمان نے کہا: یار کیا بتاؤں میں تو تم لوگوں کی بات سن کر عالمہ سے بدظن ہوگیا تھا، لیکن جب شادی ہوئ تو میں نے بر عکس پایا،بے چاری بہت شریف امانت دار اور ہر کام کو اچھے سے پورا کرنے والی ہے، نماز روزہ کی پابندی کرتی ہے اور وقت ہونے سے پہلے ہی کھانا تیار کرکے لاکر رکھ دیتی ہے، میری عزت کرتی ہے،  میرے تمام حقوق اداکرتی ہے، ہر روزصبح سویرے اٹھ کر میرے لیے ناشتہ تیار کرتی ہے ،بچوں کا بھی خیال رکھتی ہے، انکی اچھی تربیت کرتی ہے، میرے دوبچے ہیں ایک لڑکا چار سال کاہے اور ایک لڑکی ایک سال کی ہے، دونوں کا خیال رکھتی ہے ، لڑکے کو قرآن پڑھاتی ہے،یار میں تو بہت خوش ہوں اسکے ساتھ، ایسالگتا ہے کہ میرا گھر میرے لیے جنت بن گیا ہے، ہم ایک دوسرے سے بے حد محبت کرتے اورخوش وخرم زندگی گزرا رہے ہیں ،اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، میرے ماں باپ کی بھی خدمت کرتی ہے، وہ بھی اس سے خوش ہیں،بچیوں کو اور دیگر عورتوں کو دین کی باتیں سمجھاتی ہے ـ
اسکی باتیں سن کر سارے دوست رونے لگے اور کہنے لگے: عثمان تو ہی حق پر تھا تیری بات ہی صحیح تھی،اگر ہمیں پتہ ہوتا تو ہم بھی دیندار عالمہ لڑکی سے شادی کرتے، لیکن ہم نے دنیوی زندگی کے عیش کا سوچا اور دنیا دار لڑکی کو ترجیح دی ،آج ہم بہت پریشان ہیں، ہماری زندگی جہنم بن گئ ہے، یہ کہ کر سارے دوست رونے لگے، عثمان نے انھیں تسلی دی اور کہا:  ایسی کیابات ہوگئ دوستوں ! بتاؤ تو صحیح؟  
زید نے کہا:  یار میری بیوی تو بس فلم دیکھتی ہے، اور اسی کے مطابق دڑیس یعنی لباس پہنتی ہے، بے پردہ گھومتی ہے،  اتنا منع کرتا ہوں لیکن میری بات بالکل بھی نہیں سنتی، فٹ اور پتلے کپڑے پہنتی ہے،میں تھک گیاہوںسمجھاتے سمجھاتے، زیادہ ڈانتا ہوں تو کہتی ہے کہ: آپ مجھے قید کرنا چاہتی ہیں،مجھ پر پابندی لگانا چاہتے ہیں،بچے کو کبھی جی میں آیا تو پڑھادیتی ہے، اور باقی وقت لغویات میں لگی رہتی ہے، کبھی کبھی تو کھانا بھی مجھے ہوٹل سے منگوانا پڑتاہے،نماز روزہ اور قرآن کی تلاوت سے دور دور تک کا کوئ واسطہ نہیں صرف سینیما بینی کرتی رہتی ہےـ
ناظم نے کہا: یار میری بیوی میری عزت تو کرتی ہے، ہر کام کرتی ہے، لیکن جب کبھی اسکے مزاج کے خلاف کوئ بات آتی ہے تو غصہ ہوجاتی ہے اور ایسے کلمات کہ دیتی ہے کہ جس سے مسلمان اپنے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتاہے،یہ تو مجھے ایک مولنا کی تقریر سننے کے بعد پتہ چلا ،میں نے مولنا سے کہا کہ ایساتو وہ کہتے رہتی ہے، چنانچہ مولنا کے کہنے پر میں نے تجدید نکاح کرلیا،اب کیا پتہ صحیح سے رہے گی یا نہیں ـ
ریحان نے کہا: یار مت پوچھو میری بیوی تو تم سب سے خطرناک ہے، میں اپنی زندگی سے تنگ آچکاہوں ،نہ ہی عزت کرتی ہے، نہ ہی کام کرتی ہے، بس جو جی میں آتا کرتے رہتے ہی اور مجھ پر ہمیشہ حاوی رہتی ہے، مصیبت میں اتنے بُرے اور گھٹیا الفاظ  استعمال کرتی ہے کہ شرم بھی شرما جائے، کبھی کبھی تو کلمات کفر تک بول دیتی ہے، میں نے ایک مولنا سے پوچھا تو انھوں نے میراتجدید نکاح کرایا،اب تو میں اسکو چھوڑنا چاہتا ہوں، بس اولاد کی وجہ سے کچھ نہیں کرپاتاہوں، کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا؟
اب سب دوست رو رو کر عثمان سے فریاد کرنے لگے کہ:  یار عثمان کوئ حل نکال ،ہم لوگوں کی کچھ مدد کر، چنانچہ عثمان انھیں لیکر ایک مولنا صاحب کے پاس گیا، مولنا صاحب کو اپنی پوری روداد سنائ اور ان سے حل پوچھا، توانھوں نے کہاکہ آپ سب اپنے حقوق پورے پورے ادا کیجیے اللہ سے دعاءکیجیے ،اور انھیں بہشتی زیور پڑھنے کے لیے کہ دیجیے، اور عثمان کی اہلیہ سے کہیے کہ اسے دین اسلام کی موٹی موٹی باتیں بتادے،عثمان گھر آیا، اور حلیمہ سے بلا کر کہا کہ: مہمانوں کو تم دین کی موٹی موٹی سمجھا دو اورکلمات کفر، نیز شوہر کے حقوق اورعدم ادائیگی پر وعید، شوہر کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے یہ سب چیزیں اچھی طرح سمجھا دو، اور اولاد کی کسیی تربیت کی جائے، حلیمہ ان سب کو لیکر بیٹھی اور بات کرتے کرتے انھیں سمجھانے لگی اور ساری باتیں اچھی طرح واضح کرکے بتایا، وہ سب رونے لگی، انھیں ندامت ہوئ کہ ہم نے اب تک بہت زیادہ نافرمانی کی، اپنے شوہر کی حد سے بھی زیادہ توہین کی، ہم نے انکی قدر نہیں کی ،انکے مرتبے کو نہیں پہچانا، اب ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ان شاء اللہ اب سے ہم انکی قدر کریں گے، لیکن اب تک کی جو غلطی ہوگئ اسکی تلافی کیسے ہوگی،حلیمہ نے کہا:  دو رکعت صلاة التوبة پڑھیے اورتوبہ کرکے اللہ تبارک وتعالی سے معافی مانگیے، نیز اپنے شوہر سے بھی معافی مانگ لیجیے اللہ معاف کردے گا، اور باقی زندگی خوشی خوشی گزاریے، اب دو دن گزر گئے تھے ،عثمان نے اپنے دوستوں سے کہا اب تم خوشی خوشی چین وسکون کے ساتھ زندگی گزاروگے ان شاءاللہ، دوستوں نے عثمان اور حسینہ کا شکریہ ادا کیا، اور ان عورتوں نے بھی حلیمہ کا شکریہ ادا کیا، گاڑی کاوقت ہوچکا تھا اسلیے جلدہی عثمان اور حلیمہ انھیں لیکر اسٹیشن پہنچے، اور روتے ہوئے مصافحہ و معانقہ کرکے الوداع کہا،کچھ ہی گھنٹوں میں وہ سب اپنے گھر پہنچ گئے، اور دوستوں نے بہشتی زیور بھی لا رکھا تھا ،تینوں کو ایک ایک دیدیا اور پڑھنے کے لیے کہا، اب تو  انکی زندگی بالکل ہی بدل چکی تھی،وہ سب شوہر کی مطیع وفرمانبردار بن گئ اور شوہر کا بھی سلوک بڑا مشفقانہ ہوچکا تھا،شوہر بھی محبت بھرے انداز میں بلاتا ،وہ بھی پیار سے پکارتی، نماز کی پابند ہوگئ اوربہشتی زیور پڑھتی رہی، خیر بڑی فرحت وشادمانی کے ساتھ رہنے لگے، اسی حالت میں ایک سال گزر گیا، اب ان عورتوں نے سب کچھ سیکھ لیا تھا، دوستوں نے یکے بعد دیگرے عثمان کو فون کیا اور کہا: کہ یار "حلیمہ کی شرافت رنگ لائ"اگر اسکی شرافت سے یہ عورتیں متأثر نہ ہوتی تو انکی باتیں بالکل بھی نہ سنتی، عثمان نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اپنی اہلیہ کابھی شکریہ ادا کیا اور اسکو مبارکباد دی.
اب سب کو یہ بات سمجھ میں آگئ کہ جسطرح دینی تعلیم مردوں کے لیے ضروری ہے اسی طرح دین کی موٹی موٹی باتوں کو جانناعورتوں کے لیے بھی ازحد ضروری ہے، ورنہ عورتوں کے نہ جاننے کی وجہ سے اسکی زندگی تو خراب ہوگی ہی، رشتہ میں دڑاڑ پیداہوجائے گا، اسکے ساتھ ساتھ اسکی اولادیں بھی بد دین ہوجائے گی، لہٰذا عورتوں اور مردوں کو دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا حاصل کرنا بھی ضروری ہے،اتنا کہ جس سے حلال وحرام کاپتہ چل جائے، ورنہ بعد میں سوائے حسرت وندامت کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا ـ

کوئی تبصرے نہیں