ایک دردمندانہ پیغام احباب دعوت کےنام
ایک دردمندانہ پیغام احباب دعوت کے نام
از قلم : صدیق احمدبن مفتی شفیق الرحمن قاسمی
یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ دعوت وتبلیغ نے امت محمدیہ کے ایک بڑے طبقے کو راہ راست پر لانے اور انکی زندگیوں کو سنوارکر ضلالت وگمراہی کی گھٹا توپ تاریکی سے نکال کر ایمان ویقین اور توحید کی روشنی میں لانے میں ایک نمایا کارنامہ انجام دیا ہے، جس کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی ،چونکہ اسکی بنیاد ان اصول وقواعد اور اسلام کے ان ضابطوں پر رکھی گئ تھی جو قرآنی تعلیمات اور احادیث نبویہ کے عین مطابق اور عقل انسانی سے از حد قریب تھی ـ
نیز انکے افراد علماء کرام اصحاب فضل وکمال کی رائے مشورے سے تمام دینی طبقوں سے جڑ کر اپنے اصلاحی کام میں دل و جان سے مستقل مشغول ہو کر امت کی پیاس کو بجھا تے رہے اوریہ سلسلہ اپنی غیر معمولی مقبولیت کی وجہ سے برسہا برس چلتا رہا ،اور اسکی کرن دنیا کے کونے کونے تک پہنچی، امت کے افراد کو تیار کرنے میں بہت زیادہ مؤثّر اورکارگرثابت ہوا ـ
چنانچہ دعوت و تبلیغ کے تمام طبقوں میں پھیل جانے کی وجہ سے اسکا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور روز بروز اسکےافراد بڑھتے گئے ،حتی کہ افراط وتفریط سے کام لیا جانے لگا، نوبت یہاں تک پہنچ گئ کہ صرف اسی کو دین کا کام سمجھ کر دیگر دینی کاموں کی تحقیر وتذلیل اور بے جا تنقید واعتراض پر اتر آئے اور اس عظیم کام کو اپنی بے راہ روی اور ہٹ دھرمی سے داغ دار کرنے میں مشغول نظر آنے لگے، حالانکہ اس پُر فتن دور میں جہاں مختلف فتنوں سے نبرد آزما ہونا ہوگا وہیں اس کام کی حفاظت، اجتماعیت کی بقاء ،اتحادو اتفاق کے قیام کی بھی ضرورت ہےاوردین کے ہر طبقے کو ساتھ لےکر باہم ایک دوسرے کے تعاون سے خطرات کے منڈلاتے بادل کو ہٹا نا ہوگاـ
نیز منزل مقصود کی طرف ایمان و اعمال صالحہ کا توشہ لیتے ہوئے اپنے ایمان و اعمال کی فکرکرکے اس چند روزہ زندگی کے گنے چنے دن کو اچھے سے گذارنے کے متعلق فکر مند ہونا بھی بے حد ضروری ہے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ اہل باطل اسلام دشمن طاقتیں عیار وں مکاروں اور فسادیوں کو اسلام اور مسلمان پرزبان درازی کا موقعہ مل جائے اور دیگر قوموں تک غلط پیغام پہنچے اور یہ ہماری بدنامی کا باعث بنےـ
ان تمام جہتوں پر نظر کرتے ہوئے آپسی اختلافات وخلفشار اور تنازعات کا فوری حل کر کے نئ حکمت عملی اختیار کرنا وقت کی ضرورت اور اہم فریضہ ہے ،بصورت دیگر بڑی دشواریاں مشکلات اور پریشانیاں درپیش ہوسکتی ہیں، جس کا اثر نسلہانسل تک پہنچے گا اور ذمے دار ہم ٹھہریں گے ،لہٰذا ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو نمونئہ حیات بنا کر ان کی تعلیمات کی روشنی میں دستور حیات کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق پیغمبرانہ اسلوب اختیار کر کے اپنے بزرگوں کے مرتب کردہ اصول وضوابط کی روشنی میں اپنی زندگی کی منزل بھی طے کریں اور تمام چیزوں کو اپنی زندگی میں بھی لاکر عملی جامہ پہنائیں اور دوسروں کو بھی اسکی دعوت دے کر حکمت اور اچھے طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی فکر کریں ـ
قرآن کریم میں اللہ تبارک وتعالی نے انسانیت کی تخلیق کا مقصد عبادت خداوندی بیان فرمایا ہے، وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون.(القرآن)
اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو نمونئہ حیات بنانے کا حکم دیا جیسا کہ اللہ کا فرمان ہےـ
لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة (القرآن )
نیز احادیث نبویہ میں مؤمن کو آپس میں ایک دوسرے کابھائ قرار دیا ہے، إنما المؤمنون إخوة( الحدیث)
اور احادیث مبارکہ میں آپس میں ایک دوسرے سے مل جل کر محبت و بھائ چارگی کے ساتھ حسد وبغض اور کینہ کپٹ سے دور رہنے کا حکم دیا گیا ہےـ
لا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا ولا تقاطعوا وكونوا عبادا لله إخوانا (الحديث)
اور ایسے حالات میں جبکہ اسلام مخالف ہواچل رہی ہے اللہ کے اس فرمان پر عمل کرنے میں ہی عافیت ہے کہ اختلاف نہ کرو ورنہ تمھاری طاقت کمزور ہوجائے گی اور اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھوـ
ولا تنازعوا فتفشلوا وتذهب ريحكم . واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا. (القرآن)
چنانچہ اس وقت ہمارے ملک میں اسلام وایمان پر اسلامی تشخص پر عقیدئہ توحید پر زبردست یلغار ہے، ہر طرف سے ان کو ختم کر کے نیست ونابود کرنے کی انتھک کوشش کی جارہی ہے اور آپس میں لڑائ ڈال کر اختلاف پیدا کر کے نفرت ودشمنی کی جو فضا بنائ جارہی ہے یہ سب باطل کی سازشوں کو کامیاب بنانے کا ایک حصہ ہے جو ہم کو اپنے مقصد اصلی سے ہٹا کر ہمارے عقیدے نظریات اور توحید وایمان اور کردار پر حملہ کر کے ہمارے دل کو ان تمام خزانوں سے کھوکھلاکرنا چاہتے ہیں اور ہمیں اسکا احساس تک نہیں ہر ایک اپنی اپنی زندگی کی فکر میں مست ومگن ہے اور غیر شعوری طور پر باطل اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہا ہے پتہ نہیں شیطان نے ہمیں کہاں لاکر کھڑا کردیا ہے کہ ہم نے ایک دعوت وتبلیغ کے پیغمبرانہ کام کو داغدار کردیا اور اب نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا غلط نقشہ لوگوں کے ذہن ودماغ میں بیٹھتا جا رہا ہے، حالاںکہ یہ کام اختلاف وانتشار سے بالکل پاک، اپنی مؤثّر کارکردگی سے امت کو دین سے قریب کرکے متحد کرنے اور پیغام خداوندی کو ان تک پہونچانے کا ایک بہترین اور زود اثر راستہ تھا، لیکن ظالموں سے یہ دیکھا نہ گیا اور اس پر حملہ کرنے میں جد وجھد کرنے لگے، بالآخر آپس میں قتل وقتال تک کی نوبت آگئ، حالاںکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: مسلمان کو بُرا بھلا کہنا فسق ہے اور انکو قتل کرنا اسوجہ سے کہ وہ مسلمان ہے کفر ہےـ
سباب المسلم فسوق وقتاله كفر (الحديث)
نیز اللہ تعالی کا فرمان ہے . ائے ایمان والو! بد گمانی سے بچو کیونکہ یہ گناہ ہے جاسوسی نہ کرو اور آپس میں ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو یعنی پیٹھ پیچھے برائ نہ کرو. ياأيها الذين أمنو اجتنبوا كثيرا من الظن إن بعض الظن إثم ولا تجسسوا ولا يغتب بعضكم بعضا.( القرآن)
یاد رہے ! با ہم اختلاف کے وقت ایک فریق کی طرف سے خوش فہمی تو دوسرے فریق کی طرف سے غلط فہمی بدگمانی اور ایک کی تعریف دوسرے کی غیبت کا ہونا ایک بدیہی بات ہے ،جس سے شاید کوئ بھی محفوظ نہیں، ایسے اوقات میں ایسی جگہوں پر اصل مقصود کی طرف نظر ہو تو اس کا خاتمہ نہایت ہی آسان ہوتا ہے، ورنہ صدیاں بیت جاتی ہے اور یہ حالت علٰی حالہ باقی رہتی ہے ـ
بعض لوگ تو اس میں افراط وتفریط غلو اور مبالغہ آرائ کے شکار ہوجاتے ہیں ،نتیجةً ایک تیسرا محاذ کھڑا ہوجا تا ہےجو اور بھی سنگین اور خطرناک ہوتا ہے، لہٰذا اختلافات سے بچ کر اعتدال کو ملحوظ رکھتے ہوئے امت کو مانوس کر کے محبت کے ساتھ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مؤثّر طریقہ سے پیغامات خداوندی کو لوگوں تک پہونچانا اور خود بھی ان پر عمل کرنا وقت کی ضرورت اورحالات کا تقاضہ ہے مؤثر طریقہ کو تین بنیادی اصولوں کی روشنی میں پرکھنا ہے:
۱)حق بات، ۲)حق نیت، ۳) حق طریقہ،
اسکے ساتھ ساتھ داعی کے لیے ان تین صفات کا حامل ہونا بھی ضروری ہے:
۱)دل دردمند، ۲)زبان ہوشمند ، ۳) فکر ارجمند،
امت کی فکر اور امت کا غم سینے میں ہو ـ
جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینےمیں امت کاغم امت کی فکر تھی جس کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے :
لعلك باخع نفسك ألا يكونوا مؤمنين.(القرآن)
اور اکرام مسلم جو کہ دعوت تبلیغ کے چھ نمبر میں سے بنیادی اصول ہے اسکو عملی جامہ پہنا نا اس پر عمل کرنا بھی نہایت ہی ضروری ہےـ لیکن افسوس صد افسوس یہ ساری چیزیں پس پشت ڈال کر باہم یوں جھگڑنے لگتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ان سے بڑا دشمن کوئ ہے ہی نہیں، باوجودیکہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کے ہر موڑ پر تحمّل وبرداشت اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کیا ،اللہ تعالی نے اسکا نقشہ قرآن کریم میں کھینچا ہے ـ
إنك لعلي خلق عظيم، (القرآن)
آپ تو اعلی اخلاق والے ہیں ہم انکے ہی نام لیو اور ا مّتی ہیں آخر ہمارے اخلاق کیوں اتنے گرے ہوئے ہیں؟ ہمیں اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آنا ہوگا اور محبت کی طاقت سے عظمت رفتہ کو واپس لانا ہوگا ،ورنہ وہ دن دور نہیں کہ عوام علماء سے پورے طور پر کٹ جائے گی اور سب کو ذلّت وشکستگی کا سامنا کرنا پڑے گاـ
ہمیں تو یہی پتہ نہیں ہے کہ کام کہاں سے شروع کیا جائے ہم تو محض ایک دوسرے کی حوصلہ افزائ کے بجائے ٹانگیں کھینچنےمیں لگے ہوئے ہیں ـ
اللہ تعالی کا فرمان ہے، کہ اس شخص سے بہتر کس کی بات ہوسکتی ہے جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلائے اور اعمال صالحہ کرے: ومن أحسن قولا ممّن دعا إلي الله وعمل صالحا(القرآن)
نیز دوسری جگہ پر ارشاد خداوندی ہےـ
اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے جولوگوں کو اللہ کی مساجد سے روکے . ومن اظلم ممن منع مساجد الله (القرآن)
اب اگر ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مسجد میں جانے سے روکے تو واقعةً یہ بڑے شرم کی بات ہے اور عبرت کا مقام ہے کہ غیروں کے کام کو اپنے انجام دے رہے ہیں ـ
اس بات کو اچھی طرح ذہن میں بٹھا لیجیے کہ تبلیغ کے اندر کوئ اختلاف نہیں ہے اختلافات سے بچ کر تبلیغ کر سکتے ہیں توتبلیغ کیجیے لیکن اگر اختلافات کی نذر ہو کر اپنے عقائد ونظریات کے خراب ہونے کااندیشہ ہو تو اس سے بچ جائیے، دین کے بہت سارے شعبے ہیں کسی بھی شعبے میں لگ کر کام کیجیے، مقصود سب کا ایک ہی ہےـ
اس بات کا بھی لحاظ رکھیے کہ ہرآدمی کے اندر کمی ہوتی ہے، لیکن بگاڑ اس وقت ہوتا ہے جبکہ وہ اپنی کمی کو دور کرنے کے بجائے دوسروں کی کمی دیکھنے میں لگ جاتا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ کمی جس میں دیکھے ان سے تبادلئہ خیال کرے ، دعوت وتبلیغ کے تینوں درجوں میں سے حسب استطاعت اختیار کر یں ـ
۱)منھی عنہ کو ہاتھ سے روکے ۲) زبان سے روکے ۳)دل میں اس فعل کو بُرا سمجھے( الحدیث)
اور اللہ تعالی کے اس فرمان کو ملحوظ رکھیں .ائے ایمان والو! اگر تمھارے پاس فاسق کوئ خبر لیکر آءےتو تم اسکی اچھی طرح تحقیق کرلو کہیں تم جہالت میں غلط فیصلہ نہ کردو اور بعد میں تمھیں اپنے کیے پر ندامت وشرمندگی ہو.
يا أيها الذين أمنوا إن جاءكم فاسق بنبإ فتبيّنوا أن تصيبوا قوما بجهالة فتصبحوا علي ما فعلتم نادمين، ( القرآن)
جماعت سے جتنا فائدہ پہنچا ہے اتنا کسی چیز سے نہیں پہنچا اسکا مطلب یہ نہیں کہ جماعت کے تمام افراد معصوم عن الخطاء ہے یہ فکر یہ سوچ فرقہ بنا دے گی اور امت کو کاٹ دے گی اہل علم اعتدال پر لانے کی فکر کریں . اور من چاہی زندگی گزارنے کے بجائے رب چاہی زندگی گزارے ورنہ من چاہی زندگی خسارہ اور نقصان کا باعث ہوگی .
مفتی سعید صاحب پالن پوری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ: اب تو احباب دعوت وتبلیغ کا حال یہ ہوگیا ہے کہ ان کی کوئ سنتا ہی نہیں ،کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ اب تو صرف نکلو یہی بات باقی رہ گئ ہے ،انکا کہنا ہے کہ جب سارے لوگ چھ نمبر پر آجائیں گے تو ساتواں نمبر شروع کریں گے اور یہ قیامت تک نہیں ہوگا کہ ۱۰۰ فیصد لوگ چھ نمبر پر آجائیں، حالاںکہ طریقہ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں ۱۳ سال میں ۳۰۰مسلمان تیار ہوئے اب اللہ کا حکم ہوا کہ اب آپ مدینہ جائیے، دیکھیے یہاں دعوت وتبلیغ بھی اور احکام کی تعلیم وتعمیل بھی جاری ہےـ
اصل کام دعوت کا یہ ہے کہ جو چھ نمبر پر آگئے ہیں انکو آگے بڑھائیں. علماء کے اعتراض پر انکا جواب ہوتا ہے کہ چلّہ لگاؤ خود سمجھ میں آجائے گا حالانکہ اللہ تعالی نے مشرکین منافقین اور یھود ونصاری کے سوالات کا جواب دیا انکو یہ بھی تو کہا جا سکتا تھا کہ پہلے ایمان لاؤ سب سمجھ میں آجائے گا.
پتہ چلا کہ پہلے جواب دیں گے مخاطب مطمئن ہوگا تب تو اس کا دل دعوت وتبلیغ کے کام کے لیے ہموار ہوگا، اب سمجھا نا آسان ہوگا اور ہدایت و مغفرت کا ذریعہ بھی ہوگاـ
خلاصئہ کلام یہ ہیکہ اس وقت ایسی کشمکمش میں خانہ جنگی کا شکار نہ ہو کر امت کو حق اور باطل کی پہچان کراکر ان کی صحیح رہنمائ کرنا اور اس کام کو اختلافات وتنازعات اور جھگڑے سے بالکل پاک صاف رکھنا ہماری ذمہ داری ہے، اور ہم سے اسکے متعلق پوچھ ہوسکتی ہے اس لیےآخرت کی فکر کرنا ہوگاـ
حدیث پاک میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عقلمند ہے وہ شخص جس نے اپنے اعمال کا جائزہ لیا اور آخرت کی تیاری میں لگا رہا ،اور عاجز وناکارہ ہے وہ شخص جو اپنے خواہشات نفسانی کے پیچھے بھاگتا رہا،
الكيّس من دان نفسه وعمل لمابعد الموت والعاجز من اتبع هواه.( الحديث)
اللہ تعالی کا فرمان ہے. کہ آپ لوگوں کو اپنے رب کی طرف بلائیے حکمت سے اور اچھے سے نصیحت کر کےـ
أدع الي سبيل ربك بالحكمة والموعظة الحسنة وجادلهم باللّتي هي أحسن (القرآن)
اس بات کو بھی سامنے رکھیں کہ دین کو پھیلانے کے بہت سارے راستے ہیں اسطمیں سے دعوت و تبلیغ کا کام بھی دین کے راستوں میں سے ایک راستہ ہے، نہ کہ دعوت و تبلیغ ہی دین کا راستہ ہے ،جب دین کے راستوں میں سے کسی راستے سے شر یعنی برائ پھیلنے کا اندیشہ ہو اور ا س سے دین کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو تو اس کو چھوڑ کر دوسرا دین کاراستہ اختیار کرنا ہی بہتر ہےـ
اور موجودہ صورت حال میں مولانا اسرار الحق صاحب رحمة الله عليه کی یہ بات بھی مفید ثابت ہوگی ـ
انھوں نےاپنے آخری بیان میں امت مسلمہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی تعمیر فرمائ اور ایک درس گاہ بھی بنایا جسے صفّہ کہا جاتا ہے اس سے امت کو یہ پیغام دیا کہ امت کے لیے ضروری ہے کہ قیامت تک دنیا میں جو حالات در پیش ہو نگے اُن سے مقابلہ کے لیے دو قوّت کا استعمال کرےـ
۱)اللہ کا یقین یعنی توحید جو کہ مسجد سے پیدا ہو گا .
۲) کردار سیرت النبی صلی اللہ علی وسلم کی روشنی میں مدرسے سے حاصل ہو گا .
بہترین کردار کے ساتھ خدا پر یقین ہو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جسطرح ۱۳ سال تک مکی زندگی میں مقابلہ کیا اسی طرح ہم بھی مقابلہ کر سکتے ہیں، لہٰذا فہم و تدبّر اور حکمت عملی کے ساتھ حالات پر نظر رکھتے ہوئے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے رکھیں اور اگلی منزل طے کریں ـ
چنانچہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: فإن تصبروا وتتّقوا فإن ذلك لمن عزم الأمور .
ایسے حالات میں غوروفکر کرکےسوچو کیسی حکمت عملی اختیار کرنی ہے اور اعمال کو درست کرو.
نیزامت کو ایسی خطرناک صورت حال میں باطل کی سازشوں کو ناکام بناکر ایک دوسرے کا اکرام کرتے ہوئے محبت کے ساتھ اپنے مقصد اصلی کی طرف متوجہ ہونے کا وقت ہے ،اور اختلافات وانتشار کو بالائے طاق رکھ کر امت کو ضرورت ہے سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی قربانی کی وہ بالکل کہہ سکتے تھے کہ میں اس وقت امارت کا زیادہ اہل ہوں، لیکن وہ سمجھتے تھے کہ اگر ابھی میں نے امارت کے مسئلے کو اٹھا یا تو خاندان نبوت کا کام پیچھے رہ جائے گا اس لیے حضرت معاویہ رضی للہ تعالی عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی ـ
لہٰذا آپ حضرات سے دست بستہ گذارش ہے کہ اللہ کے واسطے اختلافات کو ختم کیجیے، اسکا کوئ حل نکالیے ،اور امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ اپنے بھائیوں سے گلے لگ جائیں ،اور ہر طبقے کو ہر شعبے کے افراد کو ساتھ لے کر کام کریں، چونکہ دنیا کا نظام تقسیم کار کا ہے، ہر ایک کاکام الگ الگ ہے، لہٰذا جب تک مل جل کر ایک دوسرے کا تعاون کر کے کام کرتے رہیں گے، ہر ایک کا کام صحیح طریقے سے چلتا رہے گا، ورنہ تمام کاموں میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوسکتا ہےـ اس لیے طعن وتشنیع اور اختلافات سے کنارہ کشی اختیار کر کے صبر وتحمل سے کام لے کر اچھے اندازمیں اللہ کے پیغام کو پہنچائیں اور باطل کی سازشوں سے ہوشیار رہیں ـ
اخیر میں میں دست بدعاہوں کہ اللہ تعالی امت مسلمہ کو اختلافات وتنازعات کے دلدل سے نکال کر باہم محبت واخوّت اور بھائ چارگی کے ساتھ احکامات خداوندی پر دل وجان سے عمل پیرا ہو کر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور امت کی داخلی خارجی تمام فتنوں سے پورے طور پر حفاظت فرمائے اور امت کے بکھرے ہوئے افراد کو جوڑ دے امت کو غلبہ عطاء فرمائے ـ
آمین یا رب العالمین ـ
Post a Comment