ماہنامہ ‏النخیل ‏ایک ‏انمول ‏تحفہ - Siddiqahmad.com

ماہنامہ ‏النخیل ‏ایک ‏انمول ‏تحفہ


ماہنامہ النخیل ایک انمول تحفہ 

ازقلم: مفتی صدیق احمدبن مفتی شفیق الرحمن قاسمی 
جوگواڑ،نوساری،گجرات، انڈیا

آئےدن اردوزبان میں مختلف قسم کےمعیاری وغیرمعیاری رسالےمنظرعام پرآرہے ہیں،گزرتےایام کےساتھ اردورسالوں کی خوب ریل پیل ہورہی ہے،کتابوں کابھی انبارلگ رہاہے،لیکن کچھ ہی رسالےاورماہنامےہوتےہیں جواپنےمعیارکوچندسالوں تک برقراررکھ پاتےہیں،ورنہ عمومی طورپریہ دیکھاگیاہےکہ جہاں معمولی سی پذیرائ ملی معیارمیں گراوٹ شروع ہوجاتی ہے،بالآخرنقل وچسپاں اوردوتین ادھرادھرسےمضامین لےکرشائع کردیےجاتےہیں،ان کچھ رسالوں میں نام ماہنامہ النخیل کابھی ہے،جس نےروزاول سےہی زبان وبیان اوراندازکےاچھوتےپن کواب تک براقراررکھا،ساتھ ہی حضرت مولاناابن الحسن عباسی رحمة اللہ علیہ کی تحریریں جوکہ دل کوموہ لینےوالی اوردلوں میں کچھ کرنےکاجذبہ بیدارکرنےوالی ہواکرتی تھی،جس میں ایک طرف اردوزبان کےزبردست تعبیرسیکھنےکوملتی تھی تودوسری طرف تحریک بھی پیداہوتی تھی،دل مچل جاتاتھاکہ اب کچھ نہیں کرناہے،بس آج سےیہ کام کرناہی ہے،یہ رسالہ ہندوپاک میں اپنےدل کش اسلوب،منفرد اندازاورقیمتی موادکی وجہ سےمختصرعرصےمیں ہی مقبول ہوا،جدیداملاکی رعایت نےاسےاورنکھارا،اس رسالےمیں قارئین کی نفسیات کوسامنےرکھ کربات پیش کرنےکاجوایک الگ طریقہ ہےاس نےمزید چارچاندلگادیے،گویااب یہ رسالہ قدیم وجدیداردوتعبیرات کاذخیرہ بھی ہے،علمی موادکاایک سمندربھی،شوق وجذبےکےجادےپرسوارہونےکےلیےآواز دینےوالی ایک آوازبھی ؛ گویااس کےبہت سےمتحرک اورفعّال کاموں سےمعلوم ہوتاہےیہ ایک تحریک ہےجواردوزبان وادب کوفروغ دینےاورجدیدنسلوں کوعلوم معارف اورادب سےآراستہ کرنےکےلیےوضع کی گئ ہےـ

میراالنخیل سےتعلق:

یہ آج سےتقریباچارپانچ سال قبل کی بات ہےکہ میں نےماہ شعبان کےاخیرمیں ایک مضمون "انٹرنیٹ،سوشل کتنامفیداورکتنامضر؟" نام سےلکھاتھا،جوکہ بڑی ہی عرق ریزی سےتیارکیاگیاتھا،جس کی تیاری میں کافی دن لگےتھے اوربڑی ہی اہم معلومات رکھی گئ تھی، جب یہ مضمون انڈیاکی مختلف ویب سائٹ پرشائع ہوگیاتواسی دوران میری نظرالنخیل کےای میل ایڈریس پرپڑی، چنانچہ میں نےمیل کردیا،کچھ دنوں بعدمجھےمیل آیاکہ آپ اپنی تعلیم کےبارےمیں کچھ بتائیں، تاکہ ہم آپ کےمضمون کوشائع کرسکیں،پھرایک نمبرآیامولانابشارت نوازصاحب دامت برکاتہم کا،میں نےرابطہ کیا،علیک سلیک کےبعدمزیدقربت ہوتی گئ اوران سےرابطہ کےبعدکچھ ہمت بھی ملی اورکچھ رہنمائ بھی، یوں ہماراگہراتعلق ہوگیا،ہماری درخواست پرہمارےدوست مولانابشارت نوازصاحب دامت برکاتہم نےحضرت مولاناابن الحسن عباسی رحمة اللہ علیہ کی اجازت سےحضرت کانمبرارسال کیا،حضرت سےرابطےکےبعدمثبت جواب پانےپرمیں بےحدخوش ہوا،کوئ بھی بات پوچھنی ہوتی میسیج کردیتاتھااورحضرت جب فارغ ہوتے دیکھ کرجواب ارسال فرماتے،ایک چیزدیکھی کہ حضرت نہایت ہی متواضع اوربہت ہی دوراندیش تھے،اس درمیان بہت سی اہم باتیں پوچھنےکاموقع بھی ملا،اوریوں کچھ استفادہ ہوسکا،اب تقریبادوتین سالہ کاعرصہ گزرچکاتھا،میرےدوست جناب بشارت نوازصاحب کےتوسط سےکئ مضامین شائع ہوچکے تھے،اب بڑھتے بڑھتےکہانی نویسی کابھی سلسلہ شروع کیا،چنانچہ حیاء نامی رسالےکےلیےایک کہانی لکھ کربھیجی، جوکہ تصحیح کےبعدشائع ہوئی ـ
ایک ڈیڑھ سال قبل کی بات ہےکہ میرےمعززدوست جناب حضرت مولانابشارت نوازصاحب نےبتایاکہ حضرت مولاناابن الحسن عباسی صاحب رحمةاللہ علیہ کاالنخیل کامطالعہ نمبرایک شمارہ نکالنےکاارادہ ہے،جس میں ہندوپاک اوردنیابھرسےماہرین کےسامنےچندسوالات پیش کرکےان کےجوابات پیش کیےجائیں گے،جونسل نؤکےلیےایک قیمتی سرمایہ اورتجربات کا ذخیرہ ثابت ہوگا،میں نےکہا: یہ توبڑی ہی اچھی بات ہے،عزیزدوست نےکہاکہ میں اس کی تیاری میں لگتاہوں، آپ ایک مضمون لکھ دیجیے،اس عنوان پر"بغیررہنمائ کےمطالعہ کےنقصانات" میں اس کی تیاری میں مصروف ہوگیا،اوریہ سلسلہ چلتارہا،بالآخربڑی عرق ریزی کےبعدایک مضمون تیارہوا،جس کوتصحیح کےمراحل سےگزارنےکےبعدبھیج دیاگیا،عزیزدوست نےحوصلہ دیااورخوب دعائیں دی،اوروعدہ کیاکہ ان شاءاللہ مطالعہ نمبرمیں شائع کردیں گے،لیکن گزرتےوقت کےساتھ  مطالعہ نمبرکےصفحات بھی بڑھتے گئےاوریوں ایک ضخیم کتاب تیارہوگئ، جوکہ تقریبا۷۰۰ صفحات پرمشتمل تھی،لہٰذا"یادگارزمانہ شخصیات کااحوال مطالعہ"نام سےپاکستان میں النخیل کامطالعہ نمبرشائع ہوا،جوہاتھ وہاتھ لیاگیااورکیوں نہ ہاتھ ہاتھ لیاجاتا،حسن ترتیب، دل کش انداز،جاذب نظر،عمدہ تعبیرات، قیمتی تجربات کاجوایک انمول تحفہ تھا،بہرحال شوق بڑھتاگیا،لیکن انڈیامیں اس کی اشاعت میں قدرےتاخیرہوگئ،جس کی وجہ سےمایوسی چھاچکی تھی،ناامیدہوچکےتھے،اس درمیان ایک "کتاب طلبئہ مدارس مثالی مدرس کیسےبنیں؟"اس پرکام جاری تھا،میں اوقات فرصت کوغنیمت جان کراس کی تیاری میں مصروف ہوا،اوریوں وہ بھی تیارہوگئ،اب اشاعت کےلیےجانےوالی تھی ،تواپنےعزیزدوست مولانابشارت نوازصاحب کی خدمت پیش کیاکہ ذرانظرفرمالیں اورکچھ سپردقرطاس فرمائیں، توانہوں نےخوب سراہا،پھرحضرت مولاناابن الحسن عباسی رحمةاللہ کی خدمت میں عزیزدوست کےواسطےسے پیش کی گئ، حضرت نےپسندفرمایااورکہابھی ان شاءاللہ اس پرکچھ تبصرہ لکھ دیں گے،ادھرشوق وجذبہ بھی بڑھ رہاتھا،اورحوصلہ بھی مل رہاتھا،چنانچہ انڈیامیں اس کی اشاعت ہوگئ اورادھرالنخیل کےمطالعےنمبرکی مشغولیت نےحضرت کواورعزیزدوست کواپنی لپیٹ میں لےرکھاتھا،ادھرمیں بھی اس کتاب کی  شاعت کےبعدعلمائےکرام کی خدمات میں بھیجنےاورخواہش مندحضرات کوقیمةًدینےمیں لگاہواتھا،یوں مطالعہ نمبربھی انڈیامیں چھپ چکاتھا،میرےپاس آچکاتھا،لیکن وقت ہی نہیں مل پارہاتھا،اس لیےعزیزدوست کےاصرارکےباوجودقلم نہ اٹھاسکا،اب الحمدللہ پڑھ چکاہوں، جس پرتبصرہ ضمناہوچکاہےگویاایک لفظ میں  یہ کہاجاسکتا ہےکہ مطالعہ نمبرعلمی موادکےساتھ ساتھ تجربات وتعبیرات اوراندازبیان کےدریےکوکوزےمیں سمادینےکےمترادف ہےاورشوق وجذبےکی معراج پرچڑھانےکاایک زینہ بھی ـ
خیراب بھی تدریس سےمنسلک ہوجانےکےبعدوقت نکلنادشوارہورہاہے،تاہم عزیزدوست کےاصرارکےبعدکچھ ٹوٹاپھوٹاتأثرپیش کررہاہوں ـ
حضرت کےروپوش ہوجانےکےبعدایک افسوس رہاکہ النخیل کاکیاہوگا؟ اوراپنی کتاب پرحضرت کی تحریرنہ لےسکاـ
لیکن چندماہ قبل جب النخیل کےاشاعت کی اطلاع سناتودل باغ باغ ہوگیااورجب عزیزدوست حضرت مولانابشارت نوازصاحب کی طرف سےیہ پیش کش آئ کہ ہم آپ کی کتاب" طلبئہ مدارس مثالی مدرس کیسےبنیں؟ " کویہاں پاکستان میں جلد شائع کریں گے ان شاءاللہ، دوسراایڈیشن تیارہوجائےتوفائل ہمارےحوالےکردیجیےگاـ
اللہ تعالی سےدعاگوہوں کہ اللہ تعالی ان تمام کاموں کوحضرت مولاناابن الحسن عباسی رحمةاللہ علیہ کےلیےصدقئہ جاریہ بنائے،اورعزیزدوست مولانابشارت نوازصاحب کی دینی خدمات کوقبول فرمائےاوران کی محنتوں، کوششوں کابہترین بدلہ عطافرمائے،اوریوں ہی النخیل کاعلمی سفررواں دواں قائم ودائم جاری وساری رہےـ آمین ـ

کوئی تبصرے نہیں