رموزواوقاف اوران کااستعمال
رموزواوقاف اوران کااستعمال
رموزواوقاف کی رعایت:
جملہ اوربات کےاختتام پرایک علامت لگائ جاتی ہے،جس سےاس بات کی نشان دہی ہوتی ہےکہ یہاں ایک بات ختم یاایک جملہ ختم ہوگیا،اب دوسری بات یادوسراجملہ شروع ہونےجارہاہےـ
اسی طرح کسی بات کونقل کرتے وقت اورسوال کرتے وقت الگ الگ دوعلامتیں استعمال کی جاتی ہیں؛ تاکہ ان علامتوں سےبات مکمل طورپرسمجھ میں آسکےـ
چنانچہ رموزواوقاف کی ضرورت ہرقسم کی تحریرمیں شروع سےہی مسلم رہی ہے،تحریرمیں حسن وزینت اورنکھارپیداکرنےکےلیےمنتخب علامات کااستعمال ہوتاہےـ تاکہ بات سمجھ میں آجائےاورپڑھنےمیں سہولت ہواورساتھ ہی تحریرخوبصورت معلوم ہوـ
آئیے! ان چندمتعین علامتوں کوجانتے ہوئےان کےصحیح استعمالات کوبھی مثالوں سےسمجھتے ہیں ـ
، سکتہ(چھوٹاٹھہراؤ) comma
؛ وقفہ(ٹھہراؤ)semi colon
۔ ختمہ(وقف تام full stop
: رابطہ (ملاؤ)colon
؟ سوالیہ نشان question-mark
! ندائیہ،فجائیہ exclamation
- خط dash
”“ واوین inverted comma
() قوسین brackets
سکتہ (،) یہ علامت سب سے زیادہ مستعمل ہے۔قاری اس علامت کی جگہ پر بہت چھوٹا وقفہ کرکے گزرجاتاہے۔یعنی اس علامت پر سانس تو ٹوٹتی ہے؛ لیکن ٹھہراؤ نہیں ہوتا۔اردو میں بھی یہ علامت انگریزی نام ”کوما“سے زیادہ مشہور ہے۔اس کا استعمال مختلف جگہوں پر ہوتاہے۔ جیسے الفاظ معطوفہ ،جملہ ہائے معطوفہ اور شرط وجزا وغٖیرہ کے درمیان،جملوں کے مختلف اجزاکے درمیان فرق پیداکرنے اور جملوں کی پیچیدگی کو دور کرنے کےلیے بھی کوما کااستعمال ہوتاہے۔
مثال: محبت، اخلاق،نرم خوئی اور دل جوئی کےذریعے،مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہوجاتاہے۔
وقفہ (؛) اس علامت کی جگہ پرسانس توڑ کر ٹھہراؤ بھی کیاجاسکتاہے۔بہت سے سکتہ کے استعمال کے بعد اخیر میں وقفہ کا استعمال کیاجاتاہے؛ بعض اوقات جملوں کی اہمیت بتانے کے لیے ان کے مختلف اجزاء کے درمیان بھی وقفہ کااستعمال ہوتاہے؛ جب جملوں میں سکتہ کا استعمال ہو اور دو جملوں کو الگ الگ کرناہو،تو بھی وقفہ استعمال کیاجاتاہے۔
مثال: دہلی،ممبئی،کلکتہ،مدراس؛ یہ سبھی بھارت کے بڑے شہر ہیں۔
ختمہ(۔) بھر پور ٹھہراؤ کی یہ علامت ہے، جس کا استعمال جملہ کے مکمل ہونے پر کیاجاتاہے۔
مثال: کسی کمال کے حصول کے لیے مسلسل محنت ضروری ہے۔
رابطہ (:) کسی کا قول نقل کرنے یاکسی جملے کی تفصیل کرنے سے پہلے یہ علامت استعمال کی جاتی ہے۔
مثال: بزرگوں کاقول ہےکہ: صبح کابھولاشام کوگھرآئےتوبھولانہیں کہتے۔
سوالیہ نشان(؟) سوالیہ جملوں کے آخر میں یہ علامت استعمال ہوتی ہے۔
مثال: کیاآپ حج کو جارہے ہیں؟
ندائیہ،فجائیہ (!) یہ علامت کسی کو خطاب کرتے وقت یااستعجاب ،ناراضگی اور نفرت وحقارت کے وقت استعمال ہوتی ہے۔
مثال: حضرات! سبحان اللہ! تعجب ہے!
خط(-) چھوٹے جملہ معترضہ کے شروع اور آخرمیں یہ علامت استعمال کی جاتی ہے۔
مثال : میری رائے ہے- اگرچہ میں کیا اور میری رائے کیا-کہ آپ اس سلسلے میں مزید غورکرلیں۔
واوین(”“) کسی کا قول اسی کے الفاظ میں نقل کرنا ہو یاکسی تحریر کااقتباس لیناہو،تو یہ علامت لگادیتے ہیں، کسی خاص نام کو اہمیت دینے کے لیے بھی واوین کا استعمال ہوتاہے۔
مثال: حالی نے مرزاغالب کو ”حیوان ظریف“ کہاہے۔
قوسین(() ) اگر جملہ معترضہ طویل ہو،یاکسی عبارت کو نمایاں کرناہو،یاکوئی تشریحی جملہ ہو، تو اس کے شروع اور آخر میں یہ علامت استعمال ہوتی ہے۔
مثال: میراقلم(جومیں نے کل ہی خریداتھا)کہیں غائب ہوگیا۔
مأخذ ومراجع: حرف شیریں؛من شاہ جہانم۔
عملی مشق: آپ اپنی تحریر میں مکمل طورپررموزواوقاف کی پوری رعایت کی کوشش کیجیے۔
مثالیں پیش کی گئ ہیں، ان کی روشنی میں آپ ایک اچھی سی تحریرتیارکریں اوراس کوصحیح رموزواوقاف سےمزین کرکےپیش کریں،اس طرح کئ بارتحریرتیارکرنےکےبعدآپ رموزواوقاف کےعادی ہوجائیں گےاورآپ کی تحریربہترین تیارہوسکےگی ـ
Post a Comment