تخیل ‏؛ ‏تعارف ‏؛طریقہ ‏اورعملی ‏مشق - Siddiqahmad.com

تخیل ‏؛ ‏تعارف ‏؛طریقہ ‏اورعملی ‏مشق


تخیّل : تعارف؛ طریقہ اورعملی مشق

  تعارف: 
  تخّیل کی سادہ سی تعریف یہ ہےکہ شاعر اپنی رائے یاتصوّرکو شکل یامصوّری کے سانچے میں ڈھال دیتاہےاورایک ایسی منظرکشی کرتاہے جوچشمِ بینا،(دیکھنےوالی آنکھ)دیدہ دل اور چشمِ باطن کےلیے گہرِآب دار اور دلِ دامن کش بن جاتی ہے۔(یعنی ایسامنظرہوتاہےجوآنکھوںکےسامنے نظرآئے،دل محسوس کرے،احساسات کی دنیا سے انسان حقائق تک کاسفر خیالات میں طے کرسکےاوربعینہ اسے ویساہی محسوس کرسکےجیسامعاملہ پیش آیا)
  کالریج تخیّل کو دو حصّوں میں تقسیم کرتاہے:
  (۱)ہرعام وخاص کے پاس  یہ تخیّل ہوتاہے،اس میں انسان بیرونی(باہر) دنیا سے اپنے احساسات کے ذریعے چیزوں کو محسوس کرتاہےاور لاشعوری و غیر رضا کارانہ (نہ چاہتے ہوئے غیرمحسوس طریقے سے)طورپر اپنے ذہن میں تصویر بناتاہے؛یہ تصوّر ہر ایک کے پاس ہوتاہے۔
  (۲)یہ صرف شاعروں یافنکاروں کےپاس ہوتاہے،اس شعور میں شاعر بہت سی ارادی ،عقلی،جذباتی،محسوساتی اور شعوری چیزوں کو جمع کرتاہے۔
تخیّل وہ شئی ہے جوبات سے بات نکال لیتی ہے اوروہ چیزیں جو آنکھ سے اوجھل ہیں انہیں سامنے لاکھڑاکرتی ہے؛  اسی کےسہارے ماضی اور مستقبل دونوں ہمارے پیشِ نظر ہوجاتے ہیں۔
  بقولِ شبلی: قوتِ تخیّل ایک چیز کو سو دفعہ دیکھتی ہے اور ہرمرتبہ اس دنیا میں ایک نیا کرشمہ نظرآتاہے۔
  مثال کے طور پر ایک ہی پھول ہے جس میں کبھی شاعر خداکاجلوہ دیکھتاہے،کبھی اس سے محبوب کےلب وعارض کی خوشبو آتی ہے،کبھی اس میں عشق کے چاک گریباں کی تصویر نظرآتی ہے، توکبھی یہی پھول دنیا کی بے ثباتی کااستعارہ بن جاتاہے۔
  شاعر قوت تخیّل سے تمام اشیاء کو نہایت دقیق نظر سے دیکھتاہے،وہ ہر چیز کی ایک ایک خاصیت ایک ایک وصف پر نظر ڈالتاہے، ان کے مشترک اوصاف کو ڈھونڈ کر ان سب کو ایک سلسلے میں مربوط کرتاہے اور کبھی اس کے برخلاف جو چیز یکساں اور متحد خیال کی جاتی ہے ان کو زیادہ نقطہ سجنی کی نگاہ سے دیکھتاہےاور ان میں فرق کرتاہے۔
  سب سے مقدم اور ضروری چیز جو کسی شاعر،مصنف یاکسی تخلیقی کام کرنے والے کو کسی دوسرے شخص سے الگ کردیتی ہے وہ قوتِ متخیّلہ یاتخیّل ہے۔
  تخیّل کی قوت جس قدر کسی میں اعلی درجے کی ہوگی اسی قدر اس کی تخلیق اعلی ہوگی اور جس قدر یہ ادنی درجے کی ہوگی اسی قدر اس کی نگارش ادنی درجے کی ہوگی۔
  یہ تخیّل وہ طاقت ہے جو شاعر یا مصنف کو وقت اورزمانے کی قید سے آزاد کرتی ہےاور ماضی ومستقبل اس کے لیے زمانہ حال میں کھینچ لاتی ہے۔
  تخیّل کا مقصد: 
  صورت کو آنکھ کی اور معنی کو عقل کی تحویل سے نکالنا۔
  تخیّل اور تصوّر میں فرق :
  تخیّل کا بنیادی تعلق تخلیق کے ساتھ ہوتاہےاوراس میں شعور کاکردار مرکزی ہوتاہے؛جبکہ تصوّر ادراک کے بعد معلومات کی مرتب شکل تصوّر ہے اور وہ چیز جس کے ذریعے ادراک حاصل ہوتاہے وہ تخّیل ہے۔
  تصوّر :خیال کی وہ اعلی قوت ہے جس کا تعلق فکر کی شعوری اورلاشعوری سطحوں کے ساتھ ہے۔
  تخیّل کی مدد سے ہم پہلے سے موجود مواد کو اس طرح ترتیب دیتے ہیں کہ ایک نئی چیز وجود پذیر ہوجاتی ہے،موجود کی شبیہ ذہن میں ابھرنا تصوّرہے اور ناموجودکو تصوّرکرناتخیّل ہے۔
  تخیّل کاملکہ تین غیر معمولی طریقوں پر کام کرتاہے۔
  (۱)تخلیقی: کوئی چیز وجودمیں نہ ہواسےپیش کرنا،یعنی ایک رائے کسی کےذہن میں نہیں ہے،کسی کے ذہن کی رسائی وہاں تک نہیں ہوسکی ہے،وہاں پہنچ کر اسے نکال کرپیش کرنا۔

(۲)حضوری:کوئی چیز موجودہے،لیکن اسے دوسری نظر سے دیکھاجاتاہے،کسی اورنقطۂ نظر سے اس کےمتعلق سوچاجاتاہے،کوئی اورزاویۂ فکر یعنی سوچنےکااندازہے،لیکن اسے اس طریقے سے بھی دیکھاجاسکتاہے،اس طرح بھی اس کےمتعلق سوچاجاسکتاہے،اسی کااظہارکرنا۔
  (۳)اعتباری: اسے آپ فرضی بھی کہہ سکتے ہیں ،کسی چیز کاوجود نہیں ہے،لیکن تخیل میں خیالات میں ہم اسکے وجود کومان کراس جگہ اپنے آپ کورکھیں اورجواحساسات ہوں ، جیسے تجربات ہوں  ،جوکچھ بھی سبق حاصل ہواسے ہی پیش کرنا،گویااس طرح تصوارتی دنیاکاایک سفر اختتام کوپہونچےگا۔
  تخیّل کی دوسری قسم فکری تخیّل ہے؛ یہ تصوّرشاعر کےپاس پہلے سے موجود ہوتاہےاوراس تصوّرکوجمالیاتی لبادہ پہناکر انسان اپنے مقاصد حاصل کرلیتاہے۔
  تخیّل کا استعمال:
  تخیّل یعنی سوچ وفکر اور خیالات کو مختلف طریقے سے استعمال کرکے اس کی مدد سے ہم کسی بھی چیز کی ترجمانی اوراپنے دل ودماغ کی باتوں کو تحریری شکل میںلانے کےلیے کرتے ہیں؛یہی وجہ ہےکہ ہمارے خیالات جتنے عمدہ اور پاکیزہ ہوں گے اتنی ہی ہماری تحریر مؤثر ثابت ہوگی۔
  انسان اپنے دماغ کے اندر جب کسی بات کو لےکر گھماتاہے،سوچتاہےمختلف زاویے سے اس پر غور وفکر کرتاہے توالگ الگ باتیں سامنے آتی ہیں ،مضمون نگاری کی صلاحیت ان ہی تمام باتوں کو ترتیب وار بیان کرنے میں مفید اورکارآمد ثابت ہوتی ہے؛کیوں کہ کسی بھی چیز کی تخلیق اوربناوٹ کےلیے سب سے پہلے دل ودماغ کی ضرورت پڑتی ہے، اس کے بغیر کوئی بھی کچھ بھی نہ لکھ سکتاہے اور نہ ہی بول سکتاہے۔ 
  بولنے اور لکھنے کےلیےہمیں سوچنے اور غوروفکر کرنے کی ضرورت پڑتی ہے،اب خیالات جتنے پاکیزہ ،عمدہ ،صاف اور خوبصورت ہوں گے مضمون اتنا ہی مؤثر اور نافع ثابت ہوگا؛اسی لیے سوچنے کے لیے خالی الذہن ہونا ضروری ہے؛ ورنہ خیالات اور سوچ خوبصورت اور عمدہ نہیں ہوپائیں گے۔
  تخیّل کا وقت اور طریقہ :
  اکثرو بیشتر انسان کا ذہن فجر کی نمازسے قبل یافجر کی نماز کے فورًا بعد خالی ہوتاہےاور عصر کے بعد تفریح کرکے ذہن صاف اور خالی ہوجاتاہےتو مغرب کے بعد بہت اچھے سے خالی الذہن ہوکر سوچ سکتاہے، نیز عشاء کے بعد جب دن بھر کے تمام کام کاج سے فارغ ہوجائے اور بستر پر لیٹ جائیں اس وقت بھی ذہن خالی ہوتاہے؛ ان تمام اوقات میں سے کسی بھی وقت ہم سوچیں ، غوروفکر کریں کہ ہمیں کس موضوع پر قلم اٹھانا ہے؟ کن باتوں کو پیش کرنا ہے؟ کس طرح سمجھاناہے؟اس وقت کس موضوع پر کیسی باتوں کوپیش کرنے کی ضرورت ہے؟ باربار سوچناہے،دماغ پر زورڈالناہے،اگر دماغ کوئی بات آئے تو اسے فورًا کسی رف کافی میں لکھ لینا ہے،اگر سمجھ میں نہ آئے ان سوالوں کاجواب نہ مل پائے تو کسی ماہرقلمکار سے مشورہ لینا ہےاوران سے پوچھ کر پھر جو موضوع اور باتیں بتائیں ان کو سامنے رکھ کر از خود سوچنا ہے،  پھر مزید اس سلسلے میں جو بھی باتیں آتی جائیں انہیں رف میں لکھتے جانا ہے۔
   اسی طرح غور وفکر سے مضمون کا اصل ڈھانچہ تیار ہوجائے گا،اب بس اسے طریقہ ، ترتیب ، اصول و ضوابط کے دائرے میں لا کر تحریری انداز میں تسلسل کے ساتھ پیش کرتے جانا ہےاور عیوب ونقائص سے پاک صاف کرکے نظرِ ثانی کرنا ہے،پھر ایک مضمون تیار ہوجائے گا؛جس موضوع پر لکھنا ہو اس جیسے مضامین کو غور کرکے پڑھیں ،خود سوالات قائم کریں اور ان کے جوابات خود ہی سوچ کر تلاش کریں،جو بھی سمجھ میں آئے رف میںلکھتے جائیں ،اب جوباتیں سامنے آتی جائیں ان تمام میں سے ہرایک پر کچھ دیر غور وفکر کرتے جائیں ،جس طرح کی بھی باتیں ذہن میں آئے بلاکسی ترتیب لکھ کر جمع کرلیں؛مطالعہ اورمشاہدہ سے جو چیزیں پہلے سے ہی آپ کے ذہن میں محفوظ ہیں انہیں بھی رف میں قلمبند کیجیے ،لکھیے ،جمع کرتے جائیے ،اب اگر آپ کا یا دوست واحباب کا اس سلسلے میں اس موضوع پر کچھ تجربہ ہواہو اسے بھی رف میں لکھتے جائیں۔
  جب موضوع سے متعلق بہت سی باتیں جمع ہوجائیں جس پرآپ لکھنا چاہتے ہیں تو اب آگے مضمون نگاری کاطریقہ آرہاہے اس طریقےکو سامنے رکھ کر اسی کے مطابق مضمون کو مرتب اندازمیں تیار کرتے جائیں،ان شاءاللہ جلد آسانی سے مضمون تیار ہوجا ئے گا۔

عملی مشق:
  کسی بھی ایک چیز کولےلیجیے،اورخوب سوچیے،اس کی گہرائی تک جانےکی کوشش کیجیے،مختلف زاویے سےاس پر غورکیجیے،فائدے،نقصانات،عیوب ونقائص تمام کوسمجھنےکی کوشش کیجیے،پھرتجربات ومشاہدہ اورمطالعے کی روشنی سے جوکچھ بھی آپ نے سمجھا،محسوس کیا  اس کوپرکھیے،کھراکھوٹا،اچھےاوربُرےکااندازہ لگائیے،اس کے بعد جس نتیجےپرآپ پہونچیں گے اسے پیش کیجیے،جوباتیں اب نکھرکرسامنے آئیں اسے عمدہ ترتیب کےساتھ باہم مربوط کرکے پیش کریں؛مثال کے طور پرہم قلم کولیتے ہیں کہ قلم ایک ایساآلہ ہےجس سے باتیں محفوظ کی جاتی ہیں،زمانئہ قدیم میں اس کی شکل بانس کی لکڑی کی تھی،پھربدلتے بدلتے اب الکٹرانک آلات نے اس کی جگہ لے لی،جس کی وجہ سے انگلیوں کےپوروے سےیہ کام آسانی اورکثرت سے ہورہاہے،قلم کےفوائدہماری نظرمیں کیاکیاہوسکتے ہیں؟نقصانات ،عیوب ونقائص کیاکیانکل سکتے ہیں؟استعمال کیسےہورہاہے؟لوگوں کاقلم کےسلسلےمیںتجربہ کیارہا؟قلم کوہم کس نظر سےدیکھتے ہیں؟خیالات کوتحریری جامہ پہنانے میں قلم کاکیاکردارہے؟ان تمام سوالوںکے جوابوں کی تلاش میں ہمیں نکلناہے،اورساتھ ہی اوربھی نئےنئے سوالات ذہن میں لاکران کےجوابوں کی تلاش کاسفرکرناہے،اس طرح تخیل کاایک سفراختتام کوپہونچےگااورجوکچھ ہمارے ذہن میں باتیں آتی جائیں انہیں غیرمرتب طریقے سےلکھتے جاناہے؛اب جب ذہن آگے سوچنے سے عاجز ہوجائے،یاایسالگے کہ اس تعلق سےمیری معلومات ختم ہوچکی،تخیل جواب دےچکاہے،اب آپ حاصل شدہ موادکولےکراپنی ایک رائے قائم کریں،اپنانقطۂ نظر یعنی سوچنے کااندازواضح کریں کہ جب ہم اس کواس نظر سے دیکھیں گے تویہ تمام باتیںسامنے آئیں گی اور یہ تمام اسباق حاصل ہوں گے،جن میں اوربھی بہت سے تجربات سامنے آئیں گے۔
  اب اپنے تخیل سےآپ نےکسی ایک نظریے کوترجیح دیدی اوراپنے نقطۂ نظر کوپیش کردیا،باتیں بھی غیرمرتب طریقےپرمحفوظ کرلی،اخیرمیں تجویز یااپنی رائے پیش کردی ہے،اب ترتیب پرنظر ڈال کراسے فطری اندازمیں پیش کریں ،یعنی قلم کےوجودکےبعد سےجیسےجیسےتبدیلی آتی گئی،جیسے جیسےحالات پیش آتے رہیں،جس قسم کےبھی تجربات ہوتے رہیں ان تمام کویکےبعد دیگرے اوراخیرمیں ان تمام پراپنی رائے پیش کریں،ساتھ ہی کچھ پیغام دیناہوتوسب سےاخیرمیں وہ بھی دےسکتے ہیں۔
  تخیل کےتعارف ،طریقے اورضروری عناصر کوسمجھ کرجب آپ نے عملی مشق کے سفر کواختتام تک پہونچادیااورکچھ نتیجہ بھی سامنے آگیاتواب کسی ماہراستاذکےسامنے اپنی تحریر پیش کریں ،پھر وہ آپ کوجوغلطیاں بتائیں ،جن باتوں کی نشاندہی کریں انہیں آپ محفوظ کرلیں ،اوردوبارہ اپنی تحریر پرتنقیدی نظرڈال کراسے صحیح کرلیں ۔ان شاء اللہ اس طرح آپ تخیل کےطریقےکوسیکھ کراس کےطریقے سےفائدہ اٹھاکرتحریر تیارکرنےکےلائق ہوجائیں گےاوریوں ایک قدم مضمون نگاری کی طرف بڑھنے لگےگا۔

کوئی تبصرے نہیں