مثالی ‏مدرس ‏؛ ‏قسط ‏چودہ - Siddiqahmad.com

مثالی ‏مدرس ‏؛ ‏قسط ‏چودہ

مثالی مدرس ؛قسط چودہ 

نصیحت؛مولوی کسےکہتےہیں؟حقیقی مولوی کی تعریف ـ

  حضرت مولانا عبد اللہ صاحب کاپودروی ؒنے فارغ ہونے والے طلبۂ کرام سے چند باتیں بہ طور نصیحت کہی تھی، جو مندرجہ ذیل ہیں:

(۱)کسی بھی مدرسے میں خدمت کا موقع ملے، تو وہاں کے ماحول میں اولا مدغم ہوجانا، پھر بہ تدریج اصلاح کرنا اور یوں نہ کہنا کہ ہمارے ادارے میں ایسا ہے، ورنہ بجائے اصلاح کے افساد ہوگا۔
 
 (۲)جب کبھی نجی معاملے کی وجہ سے مدرسے سے الگ ہونا پڑے، تو خاموشی سے علاحدہ ہوجانا ،ادارے کو زک نہ پہنچانا،حضرت علی میاں ؒ فرماتے ہیں کہ:ادارے بنتے بنتے بنتے ہیں۔

  (۳)مرغیاں نہیں پالنا چاہیے کیونکہ یہ نزاع کا سبب بنے گااور اس سے علماء کا وقاربھی مجروح ہوتا ہے۔

  (۴)مفتی محمود حسن صاحب گنگوہیؒ نے مولانا عبد اللہ صاحب کاپودرویؒ سے فرمایا کہ: ہمیں تو ان ہی مخالف حالات میں تحمل کے ساتھ کام کرنا ہے،دل برداشتہ نہیں ہونا ہے۔پھر مفتی صاحبؒ نے ایک سرد آہ کھینچی اورفرمایا:مولوی صاحب ! ہمارے اکابرین نے بڑی قربانیوں کے بعد ان اداروں کو بنایا ہے،کیا ہمارے حصے میں ان کا اجاڑنا لکھا ہے۔

  (۵)علماء کااپنے مطالعہ کو وسیع کرنا اور ماحول وذرائع ابلاغ پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ (گلدستٔہ محبت ص۴۸۴)

مولوی :

   بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک بات قابل غور یہ بھی ہے کہ لفظ مولوی ایک زمانے تک بڑے بڑے علماء کرام کے لیے بولا جاتا رہا ہے۔اب یہ لفظ عام ہوگیا ہے، ہر کس و ناکس کے ساتھ لگ جاتا ہے، جو باضابطہ مدرسہ سے سند فراغت حاصل کر چکا ہو، اس لیے اب اس کی بہت ساری اقسام وجود میں آگئی ہیں:

  (۱)متشددمسلکی، (۲)امام اور(۳)مدرس۔
 
  متشددمسلکی:   

اپنے مسلک کو صحیح اوردیگر مسالک کوغلط سےلے کر کفر تک قرار دیتے ہیں۔

  امام:  
 
عام طور سے کم پڑھے لکھے یاکچے اور کمزور ہوتے ہیںاور مقتدی متولی حضرات کے دبائو میں حق بات بولنے سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

  مدرس:  

 طلبہ ،مدارس ،اور کتابوں کے ہی ہو کر رہ جاتے ہیں،انھیں باہر کی دنیا سے بالکل بھی واقفیت نہیں ہوتی اور ان میں سے ہر ایک یہی سمجھتے ہیں کہ ہم جو کر رہے ہیں، وہی دین ہے ،باقی سب دنیا ہے۔بعض مولوی دین اور دنیا کو الگ الگ کرکے سمجھاتے ہیں، گویا ایسا لگتا ہے کہ صرف دین ہی سب کچھ ہے، دنیا کچھ بھی نہیں ہے، حالاںکہ دنیوی علوم کی بھی اہمیت ہے، انھیں بھی سیکھنا چاہیے،البتہ یہ بات مسلم ہے کہ اصل میں علم دین ہی نافع مطلق ہے۔(تلخیص ؛مولوی سے اسلام کو بچاؤ)  

  لیکن یہ سب باتیں درست معلوم نہیں ہوتی ہیں؛ چونکہ جہاں دیگر طبقے کے لوگوں نے ترقی کی وہیں علماء نے ہرزمانے میں، ہرمیدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیااوراپنا لوہامنوایا ہے؛ البتہ بعض حضرات سے ان تمام امورمیں لاپرواہی ہورہی ہے، لہٰذاانہیں توجہ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ کسی کوزبان کھولنے کا اورکیچڑاچھالنے کا موقع نہ مل سکے ـ

حقیقی مولوی اور عالم کی تعریف :

  مولوی سے مراد عالم باعمل ہے،مولوی اس کو کہتے ہیں جو مولا والا ہو،  یعنی علم دین بھی رکھتاہو اور متقی بھی ہو، خوف خدا اور اخلاق حمیدہ بھی رکھتاہوـعالم کہتے ہیں متقی، متبع سنت کو، علم کے ساتھ خشیت بھی ضروری ہے ـ(العلم والعلماء ص ۸/۹

  چناں چہ حضرت مولاناقاری طیب صاحبؒ علم کی مراد کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:علم سے ہماری مراد کیا ہے ؟تو علم کے معنی محض، جان لینا ، یہ موضوع نہیں ہے، بل کہ علم سے خاص علم مراد ہے، جس کو علم نافع کہتے ہیں،جو نفع دینے والا ہے۔یہ قرآن کریم کی ایک اصطلاح ہے ؛ ایک علم نافع ہے، ایک علم مضر ہے،تو مقصود اصلی ہمارا علم نافع ہے،لیکن آپ یہ کہیں گے کہ کون سا علم ہے، جو نافع نہیں ہے؟کیاسائنس نافع نہیں ہے؟کیا اس کی ضرورت نہیں ہے؟کیا فلسفہ کا علم نافع نہیں ہے؟منطق کا علم نافع نہیں ہے؟ہیئت اور ریاضی مساحت، یہ سارے علوم ہیں جو نافع بھی ہیں اوران کی ضرورت بھی ہے۔جب علم نافع ہی موضوع ٹھہرا، تو یہ چیزیں بھی اس موضوع میں آجانی چاہئیں،لیکن میری مراد یہ ہے کہ علم نافع سے نافع مطلق ہو،یہ تمام علوم ہیں مگر مقید ہیں، سائنس سے بلا شبہ آپ بہترین سامان پیدا کر سکتے ہیں،بہترین اسباب مہیا کر سکتے ہیں،عیش وآرام کے سامان ، مگر وہ سب بدن کے لیے ہیں۔

  اسی طرح مساحت اور فلسفہ سے آپ زمین ناپ سکتے ہیں، ملکوں کی پیمائش کر سکتے ہیں، یہ سب کے سب نافع ضرور ہیں ،مگر قبر کے کنارے تک ہی نافع ہیں۔قبر میں لیٹنے کے بعد نہ ہی سائنس وہاں آپ کے حق میں نفع پہنچائے گا اور نہ ہی فلسفہ،اور منکر نکیر کا سوال بھی یہ نہیں ہوگا۔بلا شبہ یہ سب علوم نافع ہیں، مگر ایک حد تک نافع ہے، یعنی جب تک ضرورت ہو، ان کا اختیار کرنا ضروری بھی ہے اور نفع بخش بھی۔آج مسلمانوں کواگر ضرورت ہوسائنس کی، تو اس کا حصول واجبات میں سے ہے،اسی طرح فلسفہ کے حصول کابھی معاملہ ہے،سب کچھ حاصل کریں؛ لیکن بہر حال نفع رہے گامحدود اور مقید،ہماری مراد علم سے وہ ہے کہ جو نافع مطلق ہو، یعنی دنیا میں بھی نافع ،برزخ میں بھی نافع ،میدان حشر میں بھی نافع اور جنت میں بھی نافع، کہیں اس کے نفع کی انتہا نہ ہو۔تو وہ علم مرادہے اسے شریعت کی اصطلاح میں’’ علم دین‘‘ کہتے ہیں۔(تقاریر حکیم الاسلام ص ۱۳۶)

یہ بات قابل غور ہے کہ:جب مولوی اپنے آپ کو منبر نبوی کا وارث سمجھتے ہیں اور وہ واقعی وارث بھی ہیں،لیکن کیا انھیں یہ خیال نہیں آتا کہ جس نبی ﷺ کے ہم وارث ہیں، ان کے اخلاق واطوارکیسے تھے ؟اورلوگوں کے ساتھ کیسا برتائو تھا؟ان کی عملی زندگی کیسی تھی ؟کیا ہم ان کی زندگی کو نمونہ مان کر اسی کے عین مطابق زندگی گزار رہے ہیں؟یا ہم میں اب بھی کمی ہے؟ اگر کمی ہے تو کیا ہم اسکودور کر رہے ہیں؟

1 تبصرہ:

  1. السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ
    الحمد للہ میں نے "مثالی مدرس کیسے بنے؟" اس کتاب کی ایک دو قسط کا مطالعہ کیا، ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ طریقے سے علماء کرام کی مستقبل کے بارے میں کیا سوچ ہونی چاہیے کہ مجھے فراغت کے بعد دین کی خدمت میں اپنے آپ کو پیش کرنے کی کوشش کرنا ہے، رہبری فرمائی گئی ہے ۔
    اللہ تعالیٰ حضرت سے اسی طرح دین کی خدمت لے، اور جان، مال، عزت، علم، وقت، صلاحیت، مقبولیت وغیرہ تمام چیزوں میں برکت عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین
    معین الدین الفیضانی احمد آباد

    جواب دیںحذف کریں