مثالی ‏مدرس ‏؛ ‏قسط ‏دہم - Siddiqahmad.com

مثالی ‏مدرس ‏؛ ‏قسط ‏دہم

طلبئہ مدارس مثالی مدرس کیسے بنیں؟

قسط دہم.......

ازقلم:  مفتی صدیق احمد بن مفتی شفیق الرحمن قاسمی 

نظام الاوقات:-
  ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے لیے ایک نظام الاوقات بنائیں اور پھر اچھی طرح اس کی مکمل پابندی کریں،نظام کی پابندی طبیعت پر گراں ہوتی ہے؛ اس لیے طبیعت اس سے جی چراتی ہے،اگر سختی سے اسے کنٹرول نہ کیا گیا، تو وہ مزید سرکش و بے قابو ہوتی چلی جائے گی،کاہلی وسستی اس کی عادت بن جائےگی،پھر ہمارا وقت جیسا قیمتی سرمایہ ضائع ہوتا رہے گا۔
  ہم نے اپنی زندگی کے لیے جو پروگرام ترتیب دیا ہے، اس میں کچھ ایسا وقت بھی ہونا چاہیے، جس میں ہم تنہائی میں بیٹھ کر در پیش مسائل پر گہرائی اور سنجیدگی سے غور کر کے ان مسائل کی تہ تک پہنچ سکیں، اگرہمارے پاس نظام الاوقات میں مسائل پر سنجید گی سے غور کرنے کے لیے وقت نہیں، توہر طرف میڈیا نے جو  شور اور ہنگامہ برپا کر رکھا ہے، ہم اسی میں کھو کر رہ جائیںگے،میڈیا کے ہنگاموں اور پروپیگنڈوں سے آدمی بسا اوقات ایسا گمراہ ہوتا ہے اور اس طرح حیران وپریشان ہوتا ہے کہ اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آتا کہ کہاں جائے اور کیا کرے؟لہٰذا بہت محتاط اور چوکنا ہوکر زندگی گزارنا چاہیے۔ہمیں ان بزرگان دین کے ساتھ -جو صلاح وتقوی سے بہرہ ور اور عام مسلمانوں کی اصلاح کے لیے کوشاں ہیں- ہمیشہ وابستہ رہنا چاہیے۔
  ہم اپنے نظام الاوقات میں خود اپنی ذات کے لیے کچھ خالی وقت رکھیں،جس میں ہم تنہائی میں اللہ کی عطا کردہ قیمتی شئےعقل سے یہ سوچیں کہ اس وقت ہماری دینی حالت کیسی ہے؟ہماری زندگی میں رب کے احکامات کی پابندی کتنی ہے؟اورحقیقی زندگی سے ہم کتنے دورہیں؟ہمیں اپنی ذات کا محاسبہ کرنے کے لیے یہ تنہائی انتہائی ضروری ہے، اس لیے کہ دنیا کی ساری چیزیں آدمی کو ایسا غافل بنادیتی ہے کہ اسے اپنے مقصد ِحیات اور اصل ذمہ داری کا احساس بھی نہیں رہ پاتا۔ ( اے نور نظر ص۶۲ )

  علامہ برھان الدین الزرنوجی ؒ ’’تعلیم المتعلم‘‘ میں تحریر فرماتے ہیںکہ:طالب علم کے لیے اسباق اور تکرار کی پابندی ضروری ہے۔
  مزید لکھتے ہیں کہ :دن او ررات کے ابتدائی حصے میں یعنی مغرب کے بعد اورسحر کے وقت اسباق یاد کرے؛کیوںکہ یہ دونوں بابرکت وقت ہے ۔

پانچ چیزیں حصول علم میں رکاوٹ  :-    
  (۱)معصیت،(۲)لایعنی اور لغو چیزیں،(۳)سستی،(۴)بے ادبی اور(۵)سوال کرنے میں عار یاتکبر کرنا۔
  ہرطالب علم کوان سب رکاوٹوں سے بچنا چاہیے اور تعلیم کے لیے صحیح طریقہ اختیار کرنا چاہیے،کیوںکہ بسا اوقات غلط طریقہ اختیار کرنے،یا کسی کی رہنمائی کے بغیر چلنے سے ساری محنتیں رائیگاں جاتی ہیں اورفائدہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔

دوران ِزمانۂ طالب علمی:-
زمانۂ طالبِ علمی میں ہم لوگوں کا مختلف مزاج کے ساتھیوں سے واسطہ پڑتا ہے اور یقینا بہت سی مرتبہ آپس میں نااتفاقیاں ہوجایا کرتی ہیں؛ لیکن اس نااتفاقی کی وجہ سے باہمی تنافر کو بڑھاوا نہ دیتے ہوئے آپس میں عفو و درگزر کا معاملہ کرنا بہت زیادہ مفید ہوگا۔نیز خارجی چیزوں(درسیات کے علاوہ)پر اتنا زیادہ زور نہ دیں کہ درسیات متأثر ہوجائیں۔
   اپنے اوقات کا صحیح استعمال کرنے کی عادت ڈالیں،بہت سی مرتبہ ہم اپنے اوقات کا صحیح استعمال نہیں کرپاتے، حرام غذائوں سے بچ نہیں پاتے اور کچھ غلط عادتیں زمانۂ طالبِ علمی سے ہی ہمارے اندر باقی رہ جاتی ہیں، جن کی جانب ہم یہ سوچ کرتوجہ نہیں دیتے ہیں کہ ابھی عمر ہی کیا ہے، بعد میں اصلاح ہوجائے گی اورسدھر جائیںگے، حالاںکہ مشہور ہے کہ جیسا بوئوگے ویسا ہی کاٹوگے۔ 

  چند قابلِ توجہ باتیں ہیں، جن کو عمل میں لانا طالبِ علم کے ساتھ ساتھ ایک مدرس کے لیے بھی مفید ثابت ہوگا۔

  (۱)  موبائل میں بے جا مشغولیت سے بچنا۔
  (۲)  اللہ سے توفیق مانگنا؛ کیوںکہ توفیق الٰہی کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں۔
  (۳)  راتوں کو جاگ کر محنت کرنا اوراللہ سے مانگنا۔
  (۴)  ہرچیز کو محنت سے حاصل کرنا؛ کیوںکہ وہ دیرپا ہوتی ہے۔
  (۵)  مدرسہ کا معتقد بننا کہ ذرّہ برابر بھی مدرسہ کا نقصان برداشت نہ ہو، مدرسہ کی قدر کرنا۔
  (۶)  جمعہ، جمعرات کو گزشتہ اسباق کا دَور کرنا، جو بحث ذہن میں نہ ہو، اس کو ذہن نشیںکرناـ۔
  (۷)  ہم جو بھی بات سنیں یا جو بھی پڑھیں، اس کا مخاطب اپنے آپ کو سمجھیں اور یہ سوچیں کہ اگر میں اس کے خلاف کروں، تو یہ صاحبِ کتاب کے ساتھ بے وفائی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کے ساتھ غداری ہے۔
  (۸)  استاذ خواہ ہمارے مزاج کے موافق ہوں یا مخالف؛ بہرحال ان کاعزت و احترام کریں  اور ایک استاذ دوسرے استاذ کو بھی اسی طرح عزت دے، ان کی قدر کرے، ان کو اپنے سے بہتر سمجھے۔
  (۹)  اپنے آپ کو سب سے چھوٹا اور کمتر سمجھیں، اپنے اندر تواضع وانکساری پیدا کریں۔
  یہ تمام باتیں حضرت مولانا نورعالم صاحب مدظلہٗ نے ایک مرتبہ طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے بیان فرمائی تھیں، جو افادۂ عام کے خاطر درج کردی گئی ہیں۔(بیان دارالعلوم زکریا، ٹرانسپوٹ نگر،مرادآباد۱۴۴۰ھ)
  ہمیں چاہیے کہ ہم پہلے اپنی اصلاح کی فکر کریں ،پھر مصلح بنیں۔

مولانا ابوالحسن علی ندویؒ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ آدمی کی خوش بختی کی علامت میں سے ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص کی خوبیوں پر نظر رکھے اور اپنی بُرائیوں کو دیکھے اور اسی میں کام یابی ہے۔  ــــــــــــــــ  علماء نے لکھا ہے کہ حیاء اور کبر ،حصول علم میں خواہ معلم ہو یا متعلم سب کے لیے بہت بڑامانع ہے۔ 

چند ہدایات برائے طلبہ:- 
  طلبۂ کرام کو چاہیے کہ وہ ہر طرح کے گناہوں سے اجتناب کریں، خاص طور سے بد نظری، موبائل کابے جااستعمال، سینیمابینی،تمباکو نوشی،نشہ خوری اورحرام ومشتبہ مال کھانے سے، غیبت سے،مدارس یااساتذہ کے خلاف ناحق احتجاج کرنے  اوران کے ساتھ زبان درازی کرنے سے بالکلیہ پرہیز کریں۔اگر خدانخواستہ ایسی نوبت آجائے تو فورامعافی مانگ لیں،غرض ہر طرح کے گناہوں سے بچتے ہوئے اس نیت سے علم دین حاصل کریں کہ محنت کرنا ہے،عمل کرناہےاورعلم کو پھیلاناہے؛لیکن یہ سب اس وقت آسان ہوگا ،جب طالب علم اپنا نظام الاوقات بنائے اور کسی کی رہنمائی میںعلم دین حاصل کرے ،اپنا کوئی ہدف یعنی مقصد متعین کرے ،اور ساتھ ہی ساتھ صحیح سوال کا مزاج بھی بنائے ۔
  یاد رکھیے! علم عزت ہی عزت ہے ؛لیکن حاصل ہوتاہے نری ذلت سے:العلم عز لاذل فیہ، لایحصل الا بذل لاعز فیہ. 
   اسی لیے قطب الاقطاب حضرت شیخ الحدیث مولانازکریا صاحب ؒنے طلبہ سے فرمایا کہ:اپنی قدر کو پہچانو ۔
  مفتی شفیع صاحب ؒ فرماتے تھے کہ طالب علم اسے کہتے ہیں، جس کے دماغ میں ہر وقت کوئی نہ کوئی سوال گردش کرتارہتا ہو۔(ملفوظات وواقعات مفتی شفیع ص۳۳)

  مولانااشرف علی تھانویؒ نے طلبۂ کرام کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا کہ : صرف درس و تدریس پر مغرور نہ ہوں، اس کا کار آمد ہونا موقوف ہے اہل اللہ کی صحبت،ان کی خدمت اورنظر عنایت پر،لہٰذا اس کا بھی التزام کریں۔(عالم ربانی کسے کہتے ہیںص۶۸)

  قاری صدیق احمد باندویؒ فرماتے ہیں کہ:جو شخص مدرسے کے اصول وضوابط کی خلاف ورزی کرتا ہے، وہ کامیاب ہوہی نہیں سکتا۔پتہ چلا کہ مدر سے کے قوانین پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔

  استاذ کے ادب کے متعلق حضرت تھانوی ؒ نے تو یہاں تک فرمایا کہ : جس قدر استاذ سے محبت ہوگی اور جتنا استاذ کا ادب ہوگا، اسی قدر علم میں بر کت ہوگی،عادت اللہ یہی ہے کہ استاذ راضی نہ ہو، تو علم نہیں آسکتا اور استاذ کا ادب نہ کرنے والا متقی نہیں ہوسکتا؛اس لیے اساتذہ کے ادب و احترام کوبھی ملحوظ رکھیں۔(صدائے دل ج۲ص۱۵۴)

کوئی تبصرے نہیں