مثالی ‏مدرس؛ ‏قسط ‏تیرہ - Siddiqahmad.com

مثالی ‏مدرس؛ ‏قسط ‏تیرہ


مثالی مدرس؛  قسط تیرہ 

طلبئہ مدارس مثالی مدرس کیسےبنیں؟

مطالعہ سےرشتہ نہ توڑئیے:

یہ دیکھ کربڑادُکھ ہوتا ہے کہ باصلاحیت اور ممتاز فضلاء کرام مناسب جگہ نہ ملنے کی وجہ سے جب امامت یا مکتب یا حفظ کلاس میں تدریس کے لیے مقرر ہوجاتے ہیں، تو اب تک کی پڑھی ہوئی چیزوں سے، ان کی طرف نظر اُٹھانے سے ،کتابوں کے مطالعے سے، بالکلیہ طور پر رشتہ ناطہ توڑ لیتے ہیں، حالاںکہ دین کی ہر خدمت محمود ہے اور مکتب کے مدرسین تو حضرت ابن عباسؓ کی تفسیر کے مطابق علمائے ربانین ہیں: 
  ولکن کونوا ربانین بما کنتم تعلمون الکتب  وبما کنتم تدرسون کی تفسیر کرتے ہوئےحضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:الذی یعلم الناس بصغارالعلم قبل کبارہ.وہ لوگ جو بچوں کو بڑا ہونے سے پہلے سکھاتے ہیں،وہ عالم ربانی ہیں۔(تفسیر البحرالمدید-العنایۃ شرح فتح باب النقایہ۔ذکرہ البخاری ،باب العلم قبل القول والعمل،فتح الباری۔ج۱ص۱۶۰)

  حضرت بنوریؒ نے فرمایا:کہ اگر یہ حضرات جو کہ مکتب میں پڑھاتے ہیں،ان کی محنتیں نہ ہوں، تو میرے پاس بخاری شریف پڑھنے کون آئے گا؟
  حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی ؒ نے ۱۹۴۸ ء  میں ممبئی میں دینی تعلیمی کانفرنس میں تقریر فرمائی تھی،اس میں حضرت نے یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ ’’یہ مکاتب ِ دینیہ اور مدارس اسلامیہ امت اسلامیہ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں‘‘۔
  لیکن اس کی آڑ میں ۱۶/۱۷سالہ حاصل کردہ قیمتی سرمایے کو یوں ہی ضائع کردینا اور اس کی بالکل پرواہ نہ کرنا کون سی عقل مندی کی بات ہے؟
  اصل کام تو اب شروع ہوا، اب ہمیں خدا کو جواب دینے کے ساتھ ساتھ امت کو بھی یہ ثبوت پیش کرنا ہے کہ ہم نے وقت کا صحیح استعمال کیا اور ان کی اُمیدوں پر کھرے اُترے۔ اب ہمیں امربالمعروف کے ساتھ نہی عن المنکر جیسے اہم فریضے کو بھی بہ حسن وخوبی انجام دینا ہے، ہمیں ہرکام کو حکمتِ عملی سے مؤثر طریقے سے انجام دینا ہے، جذبات سےاحتراز کرکے، جذبۂ صادق سے امت میں کام کرنا ہے، ہمت و حوصلہ اور جرأت کے ساتھ مزید آگے بڑھنا ہے اور اپنے آپ کو علمی و عملی اعتبار سے تیار کرنا ہے اور آج کل کے جدید فضلاء میں عام طور پر جو کمیاں اور کوتاہیاں پائی جارہی ہیں، ان کی طرف تھوڑی سی توجہ دے کر ان کو دُور کرکے علماء کے تئیں عوام و خواص کے دلوں کے اعتقاد و اعتماد کو بحال کرکے مقبولیت رفتہ کو واپس لانا ہوگا اور ہمیں کماحقہ اپنے حاصل کیے ہوئے علوم پر عمل کرکے اس کی بہترین انداز میں نشر و اشاعت کرنی ہوگی۔ 

علمی استعداد:-
  حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحبؒ فرماتے ہیں کہ علمی استعداد سات چیزوں پر موقوف ہے:

  (۱)ذہن،(۲)حافظہ،(۳)محنت،(۴)آلات علم، یعنی کتاب، قلم، کاغذ اور تپائی وغیرہ کا ادب،(۵)استاذ کا ادب،(۶)دعاء اور(۷)ترک ِمنکرات۔

  ان میں سے سب سے زیادہ اہم چیز ترک منکرات ہے ،اس لیے کہ علم دین اللہ تعالی کی طرف سے خاص عنایت اور اس کی بہت بڑی نعمت ہے اور اتنی بڑی دولت صرف اسی کو عطا فرماتے ہیں، جو اس کی ہر نا فرمانی کو چھوڑ کر، محبت کا ثبوت پیش کرے۔ (جواہر الرشیدج۱ص۱۱۲)

  ہمارے یہاں استعداد کی کمزوری کا سبب ارتکاز کا مفقود ہوناہے،ہم لوگ اوپر اوپر سے چیزیں پڑھ لیتے ہیں،کچھ پڑھنا شروع کیا، تھوڑی دیر بعد اسے چھوڑدیا،پھر کوئی اورکتاب لی اور پڑھنا شروع کردیا،پھر کوئی اور قصے کہانی کی کتاب لی اور اس میں لگ گئے، اس سے علم میں مضبوطی پیدا نہیں ہوسکتی؛ چوںکہ اس طرح کرنے سے ہمارے دماغ میں وہ مضامین پورے طور پر محفوظ نہیں ہوپاتے ہیں۔(صدائے دل ج۳ص۵۹)

  علمی استعدادکےتین مرحلے ہیں :

 مدرسے میں یہ دواستعدادیں پیداکی جاتی ہیں؛ علمی اورفکری علمی،استعدادکامطلب یہ ہےکہ قرآن وحدیث کےعلوم کوسمجھنےکی صلاحیت، جائزاورناجائز،حلال اورحرام سے اچھی طرح واقفیت ہو؛ اورجہاں واقفیت نہ ہو وہاں مجھے لگتاہےکےبجائےمجھےمعلوم نہیں، میں نہیں جانتاکی ہمت اورجرأت ہو؛جوچیزمعلوم ہوتی ہےاسے ڈنکےکی چوٹ پربتلاتاہوکہ یہ جائز ہےاوریہ ناجائزہے،یہ حلال ہےاوریہ حرام ـ فکری استعداد؛یعنی نظریاتی اوراعتقادی پختگی اتنی پیداہوجاتی ہےکہ شرعی معاملےمیں کسی بھی قیمت پرسمجھوتاکےلیے تیارنہیں ہوتاہےاورجذبئہ عمل بیدارہوجاتاہے ـ جب عالم کوحروف ونقوش کی سمجھ حاصل ہوجاتی ہےاورفکری واعتقادی پختگی کےساتھ ساتھ جذبۂ عمل بھی بیدارہوجاتاہےتواس میں ایسی دینی حمیت وغیرت پیداہوجاتی ہےکہ: اگردین پرتھوڑاسابھی قدغن آتاہےتواس کی راتوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہے؛ نیزاس کاضمیر پکارکرکہتاہےکہ: میں زندہ ہوں اوردین میں کمی آئے؟ لوگ دین سےدورہوجائیں؟ناجائز کوجائز کہاجانےلگے؟ غلط نظریات اورفاسدعقائد کاچرچاہو؟ نہیں یہ سب نہیں ہوسکتا ـ  تاریخ سے پتہ چلتاہے کہ دین کادفاع ہمیشہ علماء نےکیاہے؛کیونکہ لوگوں کوصحیح دین بتلانااورگمراہی سےبچانااختلاف کی بات نہیں ہے؛ غلط کوغلط بتانا توعلماء کی ذمہ داری ہےـ (طلبہ علماءاوراہل مدارس سےایک دردبھری اپیل ص ۱۵تا۱۷)
  

کوئی تبصرے نہیں