مثالی مدرس؛ قسط گیارہ
طلبئہ مدارس مثالی مدرس کیسے بنیں؟
قسط گیارہ
ازقلم: مفتی صدیق احمد بن مفتی شفیق الرحمن قاسمی
ہمارے علم میں پختگی کیوں نہیں؟:-
آج کل ہمارے علم میں سطحیت آگئی ہے،بس سند لیے اور چلے گئے اور اب یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مولوی بن گئے ہیں،اس کے بعد ہم اپنے آپ کو اساتذہ اور کتابوں سے مستغنی سمجھتے ہیں۔
جیساکہ مشہور ہے ’’نیم حکیم خطرۂ جان ،نیم ملا خطرہ ٔایمان‘‘ناقص علم اور ناقص فہم سے آدمی کو بڑا نقصان پہنچتا ہے۔ہمارے اکابر کا یہ حال تھا کہ وہ علم کے لیے، اپنے آپ کو تھکاتے تھے اور خوب محنت کرتے تھے،اس لیے ان کے علم میں گہرائی اور پختگی ہوتی تھی ۔ہمارا تو مطالعہ بھی سرسری ہوتا ہے، تو پھر کیسے علم میں پختگی پیدا ہوگی؟(صدائے دل ج۲ص۳۴۱)
علمی مذاکرہ: -
علمی مذاکرہ عبادت ہے؛دارمی میںحضرت ابن عباسؓ سے منقول ایک روایت ہے کہ:رات میںکچھ وقت علمی مذاکرہ پوری رات جاگ کر نفلی عبادت کرنے سے بہتر ہے۔[تدارس العلم ساعۃ من الليل خير من احيائہا ـ سنن دارمي 264]
دارمی میں حضرت ابن عباسؓ سے منقول ہے کہ: اِس حدیث کا مذاکرہ کرو،کہیں تم سے چھوٹ نہ جائے،چوںکہ یہ قرآن کی طرح جمع شدہ اور محفوظ نہیں ہے اور اگر تم اس حدیث کا مذاکرہ نہیں کروگے تو وہ تم سے چھوٹ جائے گی اور تم میں سے کوئی بھی یہ نہ کہے کہ :میں نے تو کل اس کا مذاکرہ کیا تھا،بل کہ گذشتہ کل،آج اور آئندہ کل بھی مذاکرہ کرو۔[سنن دارمی 622]
حضرت حارث العکلیؒ اور آپ کے اصحاب رات میں بیٹھ کر فقہ کا مذاکرہ کیا کرتے تھے۔
علمی مذاکرہ کے بے شمار فوائد ہیں:
(۱)علمی مذاکرہ حصول علم کے اہم وسائل میں سے ہے۔
(۲)مذاکرہ سے باتیں ذہن نشیں ہوجاتی ہیں اور جن مسائل کا مذاکرہ کیا جائے، ان کی پوری بحث ذہن میں محفوظ ہو جاتی ہے۔
(۳)علم کی احیاء اور اشاعت کا ذریعہ بنتا ہے۔
(۴)طالب علم اپنے عیوب سے آگاہ ہوجاتا ہے۔
(۵)مذاکرہ سے مسائل تلاش کرنے کی ہمت اور رغبت پیداہوتی ہے۔
(۶)بزرگانِ دین اور اہل علم حضرات کا مذاکرہ ضرب المثل تھا،عشاء کی نماز کے بعد بیٹھتے تھے، تو فجر کی اذان ہوجاتی تھی۔
علامہ برھان الدین الزر نو جیؒ ’’آداب المتعلم‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ:طالب علم کے لیے مذاکرہ ازحد ضروری ہے،اس لیے مذاکرہ کو لازم پکڑو؛امام اعظم ابو حنیفہؒکثرت سے مذاکرہ کیا کرتے تھے ،جب کہ آپؒ کپڑا بیچتے تھے۔
فطری صلاحیتوں کو نظر انداز نہ کیجئے
عزیز ساتھیو! یقینا ہم نے بچپن ہی سے دنیوی تمام علوم کو چھوڑکر خدا کی توفیق سے علومِ دینیہ کے حصول کی طرف اپنا رُخ کیا اورالحمد للہ، اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسمی طور پرسلسلہ تعلیم کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا، اس عظیم نعمت پر ہم خدائے بزرگ و برتر کا جتنا بھی شکر ادا کریں، کم ہے۔ اب اس کی قدردانی یہ ہے کہ ہم اس کو عملی انداز میں اپنی زندگی میں لانے کے ساتھ ساتھ، دوسروں تک پہنچانے اور ان کی زندگی میں بھی داخل کرنے کی ہرممکن کوشش کریں۔
آپ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرانسان کے اندر فطری طور پر کوئی نہ کوئی صلاحیت رکھی ہے، جس میں اسے دسترس حاصل ہے؛ اس لیے ہم میں سے ہرایک کو چاہیے کہ ہم غور وفکر کرکے اس کا پتہ لگائیں اور اُسی میں مزید آگے بڑھیں، تو یہ بڑامفید ہوگا۔ جیساکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کل مدارس میں بے شمار طلبۂ کرام حصولِ علم میں لگے ہوئے ہیں اور ہزاروں فضلاء کرام الگ الگ مدارس سے ہرسال سندِفراغت حاصل کر رہے ہیں، بعض فضلاء تو صلاحیت مند نہ ہونے کی وجہ سے تدریس کی زحمت گوارا نہیں کرتے اور بعض چاہے نہ چاہے تدریس میں مشغول ہوجاتے ہیں؛ لیکن طلبہ ان سے کماحقہ استفادہ نہیں کرپاتے ،یا تو اس وجہ سے کہ طالبِ علم کو ان کے درس پر اطمینانِ قلب حاصل نہیں ہوتا، یا استاذ حل عبارت کے بجائے بے جابحثوں کو طول دے کر وقت ضائع کردیتے ہیں؛ اسی لیے بہت کم حضرات کے اسباق مقبول ہوتے ہیں اور بہترین انداز میں حل عبارت کرنے والے بہت کم ہی مل پاتے ہیں اور ایسے اساتذہ کی تلاش ہر وقت جاری رہتی ہے ،جو حل عبارت کرانے کے ساتھ ساتھ طلبہ کے نفسیات کو پرکھ کر اس کے مطابق ان پر محنت کرسکے۔
Post a Comment