مثالی ‏مدرس ‏؛ ‏قسط ‏بارہ ‏ - Siddiqahmad.com

مثالی ‏مدرس ‏؛ ‏قسط ‏بارہ ‏


مثالی مدرس؛ قسط بارہ 
ازقلم: مفتی صدیق احمد

فضلائے کرام سے کچھ خاص باتیں:-

  حضرت الاستاذ مفتی شبیر صاحب قاسمی مرادآبادی دامت برکاتہم(شیخ الحدیث وصدر مفتی:جامعہ قاسمیہ شاہی مراداباد یوپی) نے دستار فضیلت کے موقعہ پر خطاب فرمایا؛

  (۱)اب آپ لوگ ذمہ دار بن گئے ہیں،یہ نہ سمجھیںکہ آپ عالم بن گئے؛ بلکہ یہ آپ کے تعلیمی سلسلے کی ابتدا ہے ؛جو اپنے آپ کو لگائے رکھے گا، عالم بنتا چلا جائے گا؛اور جو نہیں لگائے گا، جاہل بنتا چلا جائے گا؛چوںکہ اب کتابیں پہلے سے کہیں زیادہ سمجھ کر پڑھی جائے گی۔
   (۲)  فراغت کے بعد دستار امام طبرانی سے ثابت ہے؛جسے المعجم الکبیر میں نقل فرمایا ہے؛ یہ ذمہ داری کی پگڑی ہے،آپ لوگ اپنے اپنے علاقے کے ذمہ دار ہوں گے۔
  (۳)صدق وصداقت اور سچائی کی دیوار ہر جگہ مضبوط ہوتی ہےاور جھوٹ کی دیوار گر جاتی ہے،اس لیے اپنے آپ کو صداقت کے ساتھ متصف رکھیں۔
  (۴)تقوی کے دامن کو لازم پکڑیںاور متقی اور پر ہیزگار بنے رہیں[بننے کی سعی کریں]۔

(۵)عاجزی ،انکساری اورتواضع بہت بڑی دولت ہے؛ بہت سے مسائل اس کے ذریعے حل ہوں گےاور بہت سے فتنوں سے آپ محفوظ رہیں گے؛ جب اپنے آپ کو قابل سمجھوگے، تو فتنوں میں ملوث ہو جاؤگے؛جب اختلاف ہوجائے، تو اپنے آپ کو غیر جانب دار رکھو۔
  (۶)کسی بھی جگہ پڑھنے پڑھانے کا موقع ملے، اسے فورا قبول کرلیں؛ یاد رکھیے! مولوی کبھی بھوکا نہیں رہتا،عزت کا ایک ٹکڑا ذلت کے کروڑوں سے بہتر ہے،اس لیے دنیا کے دو روپیے کے لیے اپنے کو ذلیل نہ کریں؛خودداری سے کام کریں،پڑھنے پڑھانے کا مشغلہ کیسا بھی مل جائے، قبول کرلیں؛کبھی کسی استاذ یا ذمہ دار کی برائی نہ کریں،بل کہ ان کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کریں، طلبہ کا فائدہ پیش نظر رکھیں۔

چندرائج غلطیوں کی نشاندہی برائے فضلائے جدید :-

  آئے دن ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں اور برائیاں اتنی زیادہ عام ہوچکی ہیں کہ کوئی بھی طبقہ اس کے مہلک اثرات سے محفوظ نہیں نظر آتا ہے، ایسے حالات میں ہم ایک قائد ہونے کی حیثیت سے امت میں جاکر اپنے حاصل کردہ علوم کے ذریعے ان کو فائدہ پہنچائیںگے اور خود بھی اس کو عملی زندگی میں لائیںگے؛ اس لیے اب ہمیں بہت ہی محتاط انداز میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا؛ ورنہ ہمارا علمی سرمایہ یوں ہی سمٹ کر رہ جائے گا اور علم کا جو مقصود -عمل کے ساتھ اشاعت کے ذریعے رضائِ الٰہی- ہے، وہ حاصل نہ ہوسکے گا، اس کے لیے اب ہمیں اپنے آپ کو تمام تر بُری عادتوں کو چھوڑکر بے داغ بنانا ہوگا۔ اور تدریسی زندگی چوںکہ تعلیمی زندگی سے مختلف ہوگی؛ اس لیے بہت ہی زیادہ سوچ سمجھ کر قدم اُٹھانا ہوگا۔ اب ہمیں نزاکت پسندی، غفلت ولاپرواہی اور سستی کے ساتھ دیگر تمام عیبوں کو اپنی زندگی سے دُور کرکے اپنے آپ کو قوتِ برداشت کے ساتھ ساتھ عفو و درگزر کا عادی بنانا ہوگا؛کیوںکہ ان سے بڑی بڑی پریشانیاں منٹوں میں دُورہو جاتی ہیں اور جہاں جو کچھ پڑھانے کا موقع ملے، اسے قبول کرنا ہوگا۔ 

  چناںچہ حضرت شیخ الہندؒنے اپنے خاص شاگرد شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کو تاکیدًا یہ نصیحت کی تھی :پڑھانے کا سلسلہ مت چھوڑنا ،چاہے ایک شاگرد ہو۔جس زمانے میں شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمد مدنی مراداباد جیل میں تھے، تو دارالعلوم کے مہتمم حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب ؒ ان کی ملاقات کے لیے مراداباد گئے، دوران گفتگو انھوں نے حضرت سے پوچھا! آج کل کیا سلسلہ ہے ؟توحضرت نے جواب میں فرمایا کہ: میں قیدیوں کو قاعدئہ بغدادی پڑھا رہا ہوں،یہ جواب سن کر حضرت مہتمم صاحب ؒنے فرمایا: واہ بھائی واہ! دیوبند میں تو آپ بخاری شریف پڑھاتے ہیں اور یہاں قاعدئہ بغدادی پڑھاتے ہیں؟تو حضر ت شیخ الاسلام ؒنے کیا جواب دیا،اس کو نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ’’ہمارا کام تو پڑھانا ہے،بخاری پڑھنے والے ملیں گے، تو ان کو بخاری پڑھائیں گےاور قاعدئہ بغدادی پڑھنے والے ملیں گے، تو ان کو قاعدئہ بغدادی پڑھائیں گےاور اپنا فریضہ’’بلغوا عنی ولو اٰیۃ‘‘ اور’’لیبلغ الشاھد الغائب‘‘ ادا کریں گے۔ الغرض کام کی نوعیت نہیں دیکھی جاتی ،اخلاص دیکھا جاتا ہے۔(تلخیص :نصیحت گوش کن جاناں)

  یادرکھیے!  علماء کو قانع نہیں ہونا چاہیے، اس وقت کی سب سے بڑی پریشانی یہی ہےکہ موجودہ دور کےطلبہ، علماء اورفضلاء میں سے ہرایک قانع ہوچکےہیں؛ جس کی وجہ سے کچھ حاصل کرنے کاجذبہ بیدارنہیں ہوپاتاہے؛ کیونکہ وہ اپنے پاس موجودعلم کو ہی کافی سمجھتے ہیں؛ حالاں کہ علوم وفنون کا دائرہ اتنا وسیع ہےکہ پوری عمرگزرجائےپھر بھی تمام علوم کاحصول ناممکن ہوجائےگاـ

ہمارےاسلاف اورہم میں فرق:-

    ہمارےاسلاف اورہم میں فرق یہ ہےکہ ہمارا ایک پڑھنے کادورہوتاہے،پھرپڑھانےکادورآتاہے؛ لیکن جب ہم اسلاف کی زندگیوں کودیکھتے ہیں توہمیں یہ نظرآتاہےکہ پہلامرحلہ پڑھنے کاہوتاتھااوراس کےبعد والا مرحلہ پڑھنے اورپڑھانے دونوں کاہوتاتھاـ ان کی طالب علمی کا دورکبھی ختم نہیں ہوتاتھا؛ بلکہ انہیں یہ احساس تھاکہ ہمارے ذمےدوکام ہیں ـ پڑھنا اورپڑھانااوریہ سلسلہ موت تک چلتارہےگا ـ ہماری سب سے بڑی غلطی یہ ہےکہ حصول علم سے فراغت کےبعد ہم صرف دیناجانتے ہیں،لینانہیں؛ ہم اپنے بڑوں سےمستغنی ہوکر،موجودعلماءکرام کوچھوڑکر،صرف غیرموجود علماء کی تحریروں سےمراجعت پراکتفاکرلیتے ہیں ـ 
حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃاللہ علیہ سے پوچھا گیاکہ کب تک حصول علم میں لگے رہوگے؟ آپ نےفرمایا: اس مشغلے میں موت تک رہوں گاـ  امام احمد بن حنبل رحمۃاللہ علیہ نے بھی اسی طرح کےسوال کےجواب میں فرمایاتھا؛ حصول علم کےلیے قلم اوردوات کےساتھ مشغولی قبرتک رہے گی ـ علم کےساتھ عمل بھی ضروری ہے؛ کیونکہ بغیر عمل کےعلم عنداللہ مقبول نہیں ہےـ  امام احمدبن حنبل رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: میں نےاپنی زندگی میں جب بھی کوئ حدیث حاصل کی تواس پر میں نے عمل کیا ـ(تدریب الراوی۶/۵۷۶)

کوئی تبصرے نہیں