مثالی مدرس؛ قسط ششم
طلبئہ مدارس مثالی مدرس کیسے بنیں؟
قسط ششم
ازقلم: مفتی صدیق احمد بن مفتی شفیق الرحمن قاسمی
احساسِ ذمہ داری:--
افسوس صد افسوس! غفلت و لاپرواہی، سستی اور کاہلی آئے دن بڑھتی جارہی ہے، خوفِ خدا بھی دل سے نکلتا جارہا ہے، احساسِ ذمہ داری بھی ختم ہوتا جارہا ہے، اب تو امتِ مسلمہ اس موڑ پر آپہنچی کہ خود ان کے نام نہاد قائدوں کو بھی صحیح اور غلط کا پتہ نہیں چل پاتا، اس کی بنیادی وجوہات میں جہاں غفلت و لاپرواہی ہے، وہیں باطل کی سازشیں اور درپردہ مخالفین کی رخنہ اندازی بھی ہے، ہمیں اس بات کی بالکل فکر نہیں کہ ہم کون ہیں؟ ہمارا کیا مقصد ہے؟ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اور ہم کیا کر رہے ہیں؟
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتارہا
(اقبال)
کیا اب بھی وہ دن نہیں آیا کہ ہم ان تمام پہلوؤں پر غور کریں اور اپنے آپ کو سدھاریں، اپنی ذمہ داری کو پہچانیں اور خود کو تیار کرکے میدانِ عمل میں اُتریں اوراپنے بچوں کی بھی صحیح تربیت کرکے بچپن ہی سے میدانِ عمل میں اُتاریں؟آج امت کو ایک کامیاب ترین مدرس اور ممتاز قائد کی ضرورت ہے، جو ایک طرف طلبۂ کرام کی صحیح تربیت کرے اور دوسری طرف اُمت کی صحیح رہنمائی کرکے حکمتِ عملی کے ساتھ ان کو توفیقِ الٰہی سے راہِ راست پر لانے کی ہرممکن کوشش کرسکے، ان ہی سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چنداُصول و ضوابط پر عمل کرنا اور چندغلطیوں کا ازالہ نہایت ہی مفید اور کارآمد ثابت ہوگا، مزید برآں مدارس کی زندگی کے ساتھ ساتھ تدریسی زندگی میں بھی اگر ان تمام باتوں کو عمل میں لایا جائے تو ان شاء اللہ مستقبل میں کامیاب مدرس اور ممتاز ترین قائد بن جائیںگے۔
اُمید ہے کہ قارئین آنے والی تمام باتوں کو حرزِجان بنائیںگے اور عمل پیرا ہوکر عنداللہ ما ٔجور ہوں گے۔
طلبۂ کرام کے عزائم :---
دوستو! امت کو اچھے رہبروں کی ضرورت کل بھی تھی، آج بھی ہے اور کل آئندہ یقینا رہے گی، باری تعالیٰ ہمیں علمائے آخرت میں سے بنائیں اور ’’زبان کا عالم، دل کا جاہل‘‘ بننے سے ہماری حفاظت فرمائے،آمین۔
حضرت تھانویؒ کی طلبہ اور اہلِ علم کو نصیحت: ’’تم اپنے کو مٹادو، گمنام کردو، تو پھر تمہاری محبوبیت کی یہ شان ہوگی کہ: تم چپ ہوگے، اور تمام مخلوق میں تمہارا آوازہ (شہرہ) ہوگا۔ (العلم والعلماء)
ہم کیا کرسکتے ہیں! احساس کمتری سے نکل کر ،دل ودماغ میں یہ راسخ کریں کہ: ہم کیا نہیں کرسکتے؟ اور یہ بات دل پر لے لیں کہ: ہمارے اوقات اور ہماری صلاحیتیں دینی محنتوں پر لگے۔ اور امور ذیل کو اپنے اندر لانے کی سعی وکوشش کریں:
عزیزو! دینی علوم کا منبع وسرچشمہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ ہیں، علماء وصلحائے امت نے اپنے قیمتی اوقات قرآن وحدیث کی حفاظت اور اُن کی ترویج واشاعت کے لیے صرف فرمائے ہیں اور فہم قرآن وحدیث کے لیے علوم کو بہ آسانی سمجھنے کے لیے مختلف فنون پر تقسیم فرمایا۔ بہ قول حضرت تھانویؒ:
’’کوئی درسی فن مشکل نہیں اگر ترتیب سے ہو، اور کوئی فن آسان نہیں، اگر بلاترتیب ہو، بس یہ چیز مفقود ہے مدرسین اور متعلمین دونوں میں۔‘‘ (استاد شاگرد کے حقوق: ۱۰۴)
لہٰذا عزم کریں کہ ان شاء اللہ وقت کی قدر کرتے ہوئے صحیح معنی میں عالم دین بنیں گے اور لوگوں کی نفع رسانی کے لیے درخت ِ خُرما ثابت ہوں گے۔ بیدار مغز طالب علم وہ ہے، جو حیاتِ مُستعار کو کام میں لاکر ذخیرۂ آخرت بنانے کی فکر میں لگارہے۔
قابل احترام ساتھیو! دینی اداروں کا بنیادی مقصد قرآن وحدیث کی ٹھوس تعلیم اور مؤثر تربیت ہے کہ امت کی قیمتی امانت اداروں کی چہارر دیواری میں رہ کر قرآن وحدیث کی تعلیمات میں پختگی لائیں، اور ان کی ایسی تربیت ہو کہ وہ امت میں جاکر مؤثر انداز میں دینی خدمات کے لیے کام آجائیں، کہ ہماری ہر مسجد درس قرآن سے مزین ہو اور آئے دن پیش آنے والے امت کے فقہی مسائل کو نہج نبوی کے مطابق منبرومحراب سے حل کیا جائے۔
علمی دوستو! مدارس کا مال اور ان کا ایک ایک لقمہ؛ بلکہ پانی کا ایک ایک گھونٹ بھی وقف (اللہ کا) ہے، جس میں ہزاروں محسنین کا حصہ لگا ہوا ہے، جس کا حساب مالک أرض وسماء، ربّ ذو الجلال والاکرام کے سامنے دینا ہوگا۔ (اللّٰھم احفظنا منہ)، اِس کا ہروقت استحضار رکھتے ہوئے ہرلقمے کے حق کی ادائیگی کی حتی الامکان فکر کریں۔
پیارے بھائیو! ہمارے منتظمین، اساتذۂ کرام اور ہمارے ادارے کے دیگر کارکنان ہمارے تعلیمی وتربیتی امور کے لیے متفکر رہتے ہیں، انھوں نے ہماری تعلیم وتربیت کے لیے اسباب سہولت کو چھوڑکر مجاہدانہ زندگی بسر کر رکھی ہے، ان کی قربانیاں محض ہماری تعلیم وتربیت کے لیے ہیں؛ آخر ہم اپنی تعلیم وتربیت کے بارے میں کب تک غفلت کی زندگی گزارتے رہیں گے؟آخر ہمیں کس دن کا انتظار ہے؟ آئیں! ہم خود اپنی تعلیم وتربیت کے لیے متفکر ہوجائیں۔
عزیزو! علمائے آخرت کا مدار بھی صفات علمائے آخرت پر ہے، علمائے آخرت کے علوم میں پختگی، اخلاق میں عمدگی، قلوب میں امت کی بے دینی پر بے چینی ہوتی ہے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا (اخلاص) مقصود ہوتا ہے اور اعلائے کلمۃ اللہ مطلوب ہوتا ہے۔
ایک مسلمان کی فکر، سوچ اور دعا اتنی مؤثر ہے کہ وہ عرشِ الٰہی سے فیصلے کرواسکتی ہے، ایک مسلمان کی فکر اور دعا شرابی کبابی کی زندگی بدلنے کے فیصلے کروالیتی ہے، ایک غیر متشرع آدمی کو متبع سنت وشریعت بنالیتی ہے۔ جس کا روزمرہ مشاہدہ ہم تبلیغی احباب کی محنتوں سے کر رہے ہیں۔ تو کیا ہماری فکر ودعا ایک مہمان رسول کو اپنے اندر طلب صادق پیدا کروانے میں مؤثر نہ ہوگی؟ کیا ہماری فکر ودعا ہمارے ساتھیوں میں تعلیمی وتربیتی ذوق وشوق پیدا کرواکر علم کا رسیا اور امت کا صحیح خادم نہیں بناسکتی؟ کیوں نہیں؛ یقینا بناسکتی ہے؛اس لیے ہمیں صائب فکروں اور مخلصانہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔
یہی طلب صادق اور شوق وذوق ہے کہ جس نے امت کو رازی وغزالی، حجۃ الاسلام وقطب عالم، شیخ الہند وشیخ الاسلام اور حکیم الامت وحکیم الاسلام جیسے امام ومقتدا عطا کیے، جنھوں نے عالم اسلام میں، خصوصاً برصغیر ہندوپاک میں مدارس وخانقاہوں کا جال پھیلایا اور اس کے مفید نتائج امت نے اپنی آنکھوں دیکھے اور اس طرح دین محمدی کی حفاظت واشاعت ہوتی رہی اور عوام میں عمومی بے دینی کو دور کرنے کے لیے بانیٔ جماعتِ تبلیغ حضرت جی مولانا الیاس صاحبؒ متفکر ہوئے اور ایک ایسی الہامی تحریک شروع فرمائی، جس سے امت میں دین سیکھنے اور دین دار بننے کا عمومی جذبہ پیدا ہوا۔
کچھ اسی طرح آج ہمارے مدارس دینیہ میں منتظمین واساتذۂ کرام شب وروز ہمارے تعلیمی وتربیتی امور میں متفکر رہتے ہیں اور اس کے لیے مختلف انداز اختیار فرماتے ہیں؛ لیکن صدافسوس! ہم طلبہ کا تعاون نہ ہونے کی وجہ سے خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں کرپاتے اور دوسری طرف ہم میں دن بدن بے طلبی، بے ذوق یا پھر بدذوقی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے کہ؛ ہم نہ کرنے کے کاموں میں اس قدر منہمک ہیں کہ کرنے کے کاموں کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی، رہے ہمارے اساتذہ اور منتظمین تو وہ آخر ہمیں نہ کرنے کے کاموں پر کب تک اور کہاں تک متوجہ اور متنبہ کرتے رہیں گے!
ہاں! اگر ہم خود طلبہ ہی متفکر ہوکر کرنے کے کاموں میں مشغول ہوجائیں، تو بہت ممکن ہے کہ نہ کرنے کے کاموں سے ہم از خود محفوظ ہوجائیں گے۔ عالم ربانی حضرت جی ثالث مولانا انعام الحسن صاحب کاندھلوی ؒفرماتے تھے کہ:بھائی کرنے کے کام کروگے، تو نہ کرنے کے کاموں سے بچالیے جاؤگے؛ورنہ نہ کرنے کے کاموں میںپھنسادیے جاؤگے؛ ہماری ظاہری وباطنی ترقی، اداروں کے مقاصد کی کامیابی اور امت کی ہم سے وابستہ امیدیں بارآور ہوسکتی ہیں؛ کیوں کہ ہم اپنی اور ساتھیوں کی تعلیمی وتربیتی کمزوریوں کو بخوبی جانتے ہیں۔ اور ان کی تلافی میں اچھا کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔
Post a Comment