مثالی مدرس؛ قسط پنجم
طلبئہ مدارس مثالی مدرس کیسے بنیں؟
قسط پنجم
ازقلم: مفتی صدیق احمد بن مفتی شفیق الرحمن قاسمی
ہمارامستقبل :--
یہ دیکھ کر بڑادُکھ ہوتا ہے کہ آج کل مدارس کے طلبہ مستقبل کو سامنے رکھے بغیر ہی مدارس میں داخلہ لے کر اپنی تعلیمی زندگی مکمل کرنے لگتے ہیں، ان سے جب پوچھا جائے مستقبل کا، تو کوئی جواب نہیں ہوتا؛ جب کہ اسکول کے چھوٹے بچوں سے پوچھا جائے تو وہ بلاجھجھک جواب دیتے ہیں کہ ہم ڈاکٹر بنیںگے یا انجینئر بنیںگے۔ مدارس کے طلبہ جیسے تیسے اپنے تعلیمی سال مکمل کرلیتے ہیں اِلّاماشاء اللہ چندطلبہ ہوتے ہیں، جنھیں مستقبل کی فکر ہوتی ہے۔
عزیزو! ہم مختصر زندگی لے کر اس دنیا میں آئے ہیں،یہاں چند دن رہ کر حیات مستعار کے لمحہ لمحہ سے فائدہ اٹھانا ہے،تاکہ ہماری ابد الآباد کی اصل زندگی کام یابی سے ہم کنار ہو۔
اس کے لیے لازم ہے کہ ہم کتاب ہدایت: قرآن مجید سیکھیں،سمجھیں، عمل کریں اور امت تک پہنچائیں اور یہ صرف ہماری نیت ہی نہ ہو بلکہ عملی اعتبار سے بھی ہم اس کے لیے تیار رہیں۔
اور اس کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہمیں اپنا ایک مقصد متعین کرنا ہوگا، چوںکہ اللہ تعالی نے ہر انسان کے اندر فطری صلاحیت رکھی ہے۔ ہر انسان کسی نہ کسی چیز میں دوسرے سے ممتاز ہے ،لیکن غور وفکر کرکے اس کا پتہ لگانا یہ اسی کا کام ہے ۔
جب تک مقصد متعین نہ ہو محنت کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، یہ ایسا ہی ہوجائے گا جیسا کہ کسی نے گاڑی چلانا شروع کردیا اور مقصد متعین نہیں کیا کہ کہاں جانا ہے، تو وہ کبھی منزل تک نہیں پہنچ سکتا، اگر مقصد متعین کر لے؛ لیکن غلط راستے پر چل پڑے، تب بھی اسے پہنچنے میں یا تو بہت تاخیر ہوجائے گی، یا پہنچ ہی نہیں سکے گا ،اسی طرح سب سے پہلے تعلیم کا مقصد متعین کرنا اور اصول وضوابط کے مطابق محنت کرناضروری ہے، ورنہ کام یابی کبھی نہیں مل سکتی، بغیر تبدیلی کے ترقی ناممکن ہے اور جو اپنے دماغ کو بدل نہیں سکتے وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔
حصول علم کا مقصد :-
علم حاصل کرنےکےدومقاصدہیں: (۱) مقصدِبعید: رضائےالٰہی (۲) مقصدِقریب: دین کی حفاظت کا کام کرنا۔ "علم دین کے حصول کا حقیقی مقصد حفاظت دین ہونا چاہیے" یہ بات نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیثِ شریف سے مستنبط ہے۔ عن ابي الدرداء قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يحمل هذا العلم من كل خلف عدوله، ينفون عنه تحريف الغالين وانتحال المبطلين وتاويل الجاهلين۔ (شرح مشكل الآثار، مسندالبزار) "اس علم کو ہردور کےمعتبر لوگ حاصل کریں گے، یہ لوگ اس علم سے غلو کرنے والوں کی تحریفات،باطل پرستوں کی گڑبڑ اور جہلاء کی غلط تشریحات کو خارج کردیں گے۔ نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں اہل علم کے جوتین کام ارشاد فرمائے ہیں؛ ان کو اگرایک جملے میں کہا جائے تو "
حفاظتِ دین کام" کہاجاسکتاہے؛ چنانچہ طلبہ کو علمِ دین کے حاصل کرنےمیں حفاظتِ دین کی نیت کرنی چاہیے اور اس کو مقصدِقریب سمجھنا چاہیے۔ حفاظتِ دین _ظاہر ہےکہ _ یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے، اس کےلیے کتنے ٹھوس اور گہرےعلم کی ضرورت ہے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ چنانچہ جوشخص حفاظتِ دین کو مقصد بناکر علم حاصل کرےگا؛ اس کو بہت ہی محنت، انتہائی دلجمعی اور بھرپور یکسوئی کےساتھ حصول علم میں لگنا پڑے گا اور ساتھ ہی ساتھ ظاہری وباطنی طہارت اورگناہوں سےبھی بچنے کا اہتمام کرنا پڑےگا؛تبھی وہ اپنے مقصدمیں کامیاب ہوسکتاہے۔
نیزہمارامقصد یہ ہونا چاہیے کہ:قرآن مجید کو پڑھیں گے ،اس کے معانی ومطالب کو سمجھیں گے اور اس کے احکامات پر عمل کریں گے اور دوسروں تک اس کے پیغام کو پہنچائیں گے؛ اور ہم اپنی اصلاحکر کے اللہ کی معرفت حاصل کریں گے؛زندگی کا مقصد یہ ہے کہ:اللہ کی پہچان ہوجائے اور ہمارے دل میں یہ احسا س پیدا ہوجائے کہ : جب میری آنکھیں بند ہو جائیں گی اور میں اللہ تعالی کے حضور پیش کیا جاؤں گا، تو اللہ کے سامنے میری کیا پوزیشن ہوگی؟اس احساس کا پیدا ہوجانا ہی در حقیقت علم ہے۔
شعر:
اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تواگرمیرا نہیں بنتا، نہ بن، اپناتوبن (اقبال)
زمانۂ طالبِ علمی اور طلبہ سے وابستہ اُمیدیں:--
خدائے بزرگ و برتر نے ہمیں دنیا کے مختلف حصوں سے اکٹھا کرکے علومِ شرعیہ کے حصول کے لیے قبول فرمایا، یہ رب ذوالجلال کا عطا کردہ وہ عظیم تحفہ ہے جس پر جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے، بہرحال! جوں ہی ہم لوگوں نے مدارس کی دہلیز پر قدم رکھا، ہم سے والدین، اعزہ و اقارب اور رشتہ داروں کی اُمیدیں وابستہ ہوتی گئیں، بہت سوں نے ہمیں ایک قائد کی حیثیت دی اور بے شمار لوگوں نے ہمیں ایک باعمل عالم اور بہت سے سادہ لوح مسلمان ہمیں فرشتہ نما انسان سمجھ کر اپنے بچوں کے مستقبل کو ہمارے ساتھ جوڑنے لگے؛ نہ جانے کتنے لوگوں نے ہم سے کیسی کیسی اُمیدیں وابستہ کیں، اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم ان کی اُمیدوں پر کھرے اُترے یا نہیں؟ اور ہم نے اپنے مستقبل کی فکر کی یا نہیں؟
Post a Comment