مثالی مدرس؛ قسط چہارم - Siddiqahmad.com

مثالی مدرس؛ قسط چہارم

طلبئہ مدارس مثالی مدرس کیسے بنیں؟

قسط چہارم 

ازقلم:  مفتی صدیق احمد بن مفتی شفیق الرحمن قاسمی 

دنیا کی ہر چیز آسان ہے:-

  ایک بات آپ اپنے ذہن میں بٹھا لیجیے کہ دنیا میں کوئی بھی چیز مشکل نہیں ہے،در اصل ہماری سوچ ہر چیز کو مشکل بنادیتی ہے،جب آپ دنیا کی ہر چیز کو آسان سمجھ لیں گے، تو سمجھ لیجیے کہ وہ چیز ۷۵ فی صد آپ کو حاصل ہوگئی، اب بس ضرورت ہے کہ آپ کسی کی رہنمائی میں صحیح راستے کا انتخاب کرکے محنت شروع کر دیجیے اور نہ محنت چھوڑیے نہ ہی پابندی اورکبھی بھی ہمت نہ ہاریے، اور نہ ہی آج کاکام کل پر ڈالیے؛کیوںکہ کسی بھی کام کو کرنے کا صحیح وقت حال اور ابھی ہے، مولانا ابوالکلام آزادؒنے فرمایا تھا کہ: تم اپنے مستقبل کو نہیں بد ل سکتے؛ لیکن اپنی عادتوں کو ضرور بدل سکتے ہو،کیوںکہ اخلاق سوز ماحول میں بھی قوم کی شناخت کو بچائے رکھنا ایمان کا تقاضہ ہے، اور خدمت خلق کے جذبہ کو بیدار رکھنا انسانیت کا تقاضہ ہے، اس لیے مسلسل جد وجہد جاری رکھیے،ان شاء اللہ کامیابی آپ کے قدم چومے گی،کہ اللہ تعالی کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔
کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:-

اگر ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا؟
وہ کون ساعُقدہ ہے جو وا ہونہیں سکتا؟
احساسِ کمتری

  عزیز ساتھیو!  احساس کمتری کا شکار نہ ہوئیے ،اور کبھی بھی یہ مت سوچیے کہ یہ کام ہم نہیں کر سکیں گے؛ یاد رکھیے !جتنے بھی بڑے بڑے تاریخی کارنامے انجام دینے والے ہیں، سب آپ ہی جیسے ایک انسان تھے ،بس انھوں نے احساس کمتری کو نکال پھینکا تھااور جہد ِمسلسل کے ساتھ دعاء واستغفار کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے،حتی کہ تاریخ رقم کردی، اس لیے آپ بھی احساس کمتری کو نکال دیجیے؛جس دن آپ احساس کمتری سے باہر آجائیں گے اور کسی کام کو شروع کردیں گے، وہ دن آپ کی ترقی کا پہلا زینہ ہوگا؛پھر محنت کرتے جائیں گے، ترقی کرتے جائیں گے ،بالآخر ایک دن آپ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوکر ہی رہیں گے، ان شاء اللہ۔کیونکہ شاعر نے کیا ہی خو ب کہا ہے:

محنت کے سنہرے ہاتھوں سے تقدیر درخشاں ہوتی ہےـ
قدرت بھی مددفرماتی جب کوشش انساں ہوتی ہےـ

   یہ بھی نہ سوچیے کہ صرف پڑھناپڑھانا ہمارا کام ہے ؛ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے کام ہیں، جس کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر ہے ،آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، علماء کرام اور سلاطین عظام نے جہاں تدریس وتصنیف کااہم فریضہ انجام دیا ،وہیں زمانے کے تقاضے کو بھی پورا کیا ،سیاست میں بھی حصہ لیا ،اور انقلابی کارنامے بھی انجام دیے ،اس لیے ہر میدان میں ہر طرح کے حالات سے مقابلہ کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار رکھنا ہوگا، لوگوں کو آپ کے تعاون کی ضرورت پڑ ے گی؛ لیکن جب آپ قابل اور باصلاحیت ہوں گے تب ہی مدد کرسکیں گے ،ورنہ آپ خود بھی دھوکہ کھائیں گے اور بادل نخواستہ آپ کے مقتدی[ماننے والے لوگ ]بھی آپ ہی کے پیچھے چل پڑیں گے ،جس سے قوم کا بہت بڑا نقصان ہوگا اور جدیدتعلیم یافتہ طبقہ آپ کے تئیں بدگمان ہوجائے گا، ان کا اعتماد آپ سے اُٹھ جائے گا، پھر وہ من مانی کرنے پر آمادہ ہوجائیں گے ۔
  ان تمام باتوں کو مدّ نظر رکھ کر آپ خود سوچیے کہ آپ کی جہالت کی وجہ سے قوم کا کتنابڑا نقصان ہوگا؛اس لیے آپ احساس کمتری کا شکار نہ ہوئیے ؛ محنت کیجیے ،جو بھی حاصل کرسکتے ہیں اور جن چیزوں کی اس زمانے میں ضرورت پڑسکتی ہے، ان تمام کو ضرور حاصل کیجیے، ان شاء اللہ آپ ممتاز طالب علم بننے کے بعد مثالی مدرّس ہونے کے ساتھ ساتھ کامیاب قائد بھی بن کر نکلیں گے۔
ہم نفسیاتی اعتبار سے تیاری کیسے کریں؟
  طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو نفسیاتی اعتبار سے بھی حصول علم کے لیے تیار کرلے اور نفسیاتی اعتبار سے تیار ہونے کے لیے چار چیزیں ضروری ہیں: ـ

   (۱)قوت اراد ی :  یہ بات ذہن میں بٹھا لیجیے کہ اگر آپ کچھ بننا چاہتے ہیں، تو ا س کا دار و مدارصرف اور صرف آپ کے عزم وارادے پر ہے،اگر آپ نے کچھ بننے کی ٹھان لی ہے، تو پھر آپ کے لیے کوئی چیز رکاوٹ نہیں بن سکتی؛لیکن اگر آپ کے عزم وارادے میں ہی کسر یا نقص ہے، تو کوئی ادارہ، استاذ،یاکوئی نصاب  آپ کو نہیں بنا سکتا۔ 

  (۲)خود اعتمادی:آپ اپنے اندر یہ احساس پیدا کرلیں کہ آپ کچھ بن سکتے ہیں اور کچھ کرسکتے ہیں،کسی بھی چیز کو ناممکن نہ سمجھیں،کیوںکہ یقین انسان کو بہت آگے بڑھا دیتا ہے، جب کہ ذہین شخص بغیر یقین کے پیچھے رہ جاتاہے۔خود اعتمادی کی وجہ سے انسان سے احساسِ کمتری،مرعوبیت،ذہنی الجھن،خوف،مایوسی،اور جھجھک بالکل نکل جاتی ہے۔

  (۳)جہد ِمسلسل:اگر آپ کاذہن کمزور ہے، تب بھی آپ محنت کیجیے ،کیوںکہ آپ کی محنت کبھی بھی رائیگاں نہیں جائے گی  اور ذہانت تو فقط ایک معاون ہے،آپ کی جہد مسلسل آپ کو کامیابی سے کبھی نہیں روک سکتی،کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:
  خود کو جہد مسلسل  سے سنوارو  تم   اوروں کے بنائے سے تقدیر نہیں بدلتی
شعر  :      عنبرـ پر تو وہی اڑیں گے جن کے اپنے پر ہوں گے  
      غیر پروں پر اڑسکتے ہیں حد سے حد دیواروں تک

(۴)بلندحوصلہ:اولاً یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ پڑھنے میں طبیعت نہیں لگتی ،ہاں اکتاہٹ ضرور ہوسکتی ہے ،جس کا علاج یہ ہے کہ کتاب ،یا فن بدل لیاجائے؛لیکن جو بات آپ کے ذہن میں بیٹھ چکی ہے کہ :میرا دل نہیں لگتا ،یہ ناقابل علاج ہے؛اس لیےحوصلہ  بلندرکھیے،اور اپنے حوصلے کو یہ مت بتائیے کہ آپ کی تکلیف کتنی زیادہ ہے،بلکہ اپنی تکلیف کو یہ بتادیجیے کہ آپ کا حوصلہ کتنا بلند ہے۔(تلخیص :جو کچھ تم بننا چاہو)
شعر:
حوصلے کی ترکش میں کوشش کا وہ تیر زندہ رکھ 
ہارجاچاہے زندگی میں سب کچھ مگر پھر بھی جیتنے کی امید زندہ رکھ

کوئی تبصرے نہیں