مثالی ‏مدرس؛ قسط سوم - Siddiqahmad.com

مثالی ‏مدرس؛ قسط سوم

طلبئہ مدارس مثالی مدرس کیسے بنیں؟
قسط سوم
ازقلم:  مفتی صدیق احمد بن مفتی شفیق الرحمن قاسمی 

مدرسہ کیاہے؟:--
    مدرسہ سب سے بڑی کارگاہ ہے، جہاں آدم گری اورمردم سازی کاکام ہوتاہے؛ جہاں دین کے داعی اوراسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں،مدرسہ عالم اسلام کا بجلی گھرہے(پاورہاؤس)ہے، جہاں اسلامی آبادی ، بلکہ انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے؛ مدرسہ وہ کارخانہ ہے جہاں قلب ونگاہ اورذہن ودماغ ڈھلتے ہیں، مدرسہ وہ مقام ہے جہاں سے پوری کائنات کا احتساب ہوتاہے، اورپوری انسانی زندگی کی نگرانی کی جاتی ہے، جہاں کافرمان پورے عالم پر نافذہے، عالم کا فرمان اس پر نافذ نہیں، مدرسہ کا تعلق کسی تقویم ،کسی تمدن، کسی عہد، کسی کلچر، زبان وادب سے نہیں، کہ اس کی قدامت کا شبہ ہواوراسکےزوال کاخطرہ ہواس کاتعلق براہ راست نبوت محمدی سے جو عالم گیر بھی ہے اور زندہ جاوید بھی، اس کا تعلق اس انسانیت سے ہے جو ہردم جوان ہے، اس زندگی سے ہےجو ہمہ وقت رواں دواں ہے، مدرسہ درحقیقت قدیم اور جدید بحثوں سے بالاتر ہے،وہ تو ایسی جگہ ہے جہاں نبوت محمدی علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کی ابدیت اور زندگی کا نمو اور حرکت دونوں پائے جاتے ہیں ـ (پاجاسراغ زندگی ص ۹۰)
مدارس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ :--
 مدارس دینیہ بقاء اسلام کی صورت ہیں، کیونکہ جیسے جیسے آزادی الحاد  و بے دینی  پھیلتی گئ اسی طرح مدارس دینیہ کی اہمیت بڑھتی گئ اور تبلیغ واشاعت کے لیے بھی مدارس بہت ضروری ہیں،  ایک زمانے تک لوگ ایک دوسرے سے پوچھ پوچھ کراہم باتوں اور علم دین کوحاصل کیاکرتے تھے یاسن کر دوسرے کے سامنے بیان کردیتے تھے،  کچھ زمانے کےبعد لوگوں کا حافظہ کمزورہوتاگیا اور تقوی ودیانت داری بھی روز بروز کم ہوتی گئ، اب اس حالت میں یہ بھی اعتماد نہ تھا کہ جو نقل کرتاہے یہ ٹھیک ہے  یا اپنی طرف سے کچھ کمی بیشی کررہاہے،  جب یہ آثار ظاہرہونے لگے توسلف صالحین کو توجہ ہوئ کہ دین ضبط کرنا چاہیے؛ چنانچہ باقاعدہ استنباط،  تصنیف وتالیف اورتدوین وتحقیق کاسلسلہ شروع ہوا، پھر یہ ضرورت درپیش ہوئ کہ باقاعدہ ایک جماعت ہو جن کاکام صرف اس طریق سے دین کی حفاظت ہواور اس کےلیے پڑھانے والوں کی ضرورت ہوئ جس کی ایک صورت یہ تھی کہ جوجہاں مل گیا کچھ پوچھابتادیا؛  لیکن اس طریقے سے باقاعدہ حصول نہیں ہوسکتا تھا، چنانچہ مستقل جماعت کی ضرورت ہوئ جو ہروقت اس کے لیے تیار رہے،  جوان سے پوچھنے آئیں انہیں باقاعدگی سے بتائیں، پھر اس جماعت کے لیے سامان فراغ کی ضرورت ہوئی کہ کھانے پینے ،رہنے سہنے کا ان کے لیے کافی انتظام ہو اس طرح مدارس کی ضرورت پیدا ہوئی ـ (العلم والعلماء ص ۲۵ بحوالہ الدعوۃ الی اللہ التبلیغ ج ۲۰ ص ۲۳/۲۴ )
دینی تعلیم ضروری کیوں؟:ــ
  چناں چہ ضروریات کا علم، یعنی بقدر ضرورت عقائد کااوراحکام صلاۃ وصوم اوراحکام معاملات ومعاشرات کاعلم ہرمسلم پر لازم ہے؛ نیز اس کی بھی ضرورت ہے کہ دین اور علم دین سے مناسبت پیداکرے، جس کے لیے تعلیم ضروری ہے ـ،کیونکہ تعلیم ایک ایسا عنصر ہے ،جو انسان کو جانور سے ممتاز کرکے اسے زندگی گزارنے کا مہذب طریقہ سکھلاتا ہے، تعلیم کا انسانی زندگی کو سنوارنے اور کام یاب بنانے میں بڑا کردار ہے،یہی وجہ ہے کہ قوموں کا مستقبل تعلیم میں مضمر ہے،ان کے عروج وزوال کی داستان، مختلف مراحل کی الگ الگ حکمت عملی اور طریقۂ کار تعلیم میں پوشیدہ ہے،جہاں دنیوی معلومات کے لیے تعلیم ایک ضروری شئے سمجھی جاتی ہے، اس سے کہیں زیادہ علم دین کااتنا حصول فرض عین کے درجے میں ہے، جس سے حلال وحرام کی تمیز پیدا ہوجائے؛ کیوںکہ انسان جب اپنے پیدا کرنے والے کو نہیں جانے گا اور اپنے خالق کے احکام کو نہیں سیکھے گا، تو ظاہر سی بات ہے کہ وہ کیا اپنے خالق کی شکر گزاری کرے گا؟اور کیسے اس کے احکامات کو عملی جامہ پہنائے گا؟
چوں شمع از پئے علم باید گداخت      کہ بے علم نتواں خدارا شناخت
  پگھلنا علم کی خاطر مثال شمع زیبا ہے     بغیر علم کے نہیں جان سکتے خدا کیا ہے؟
   یاد رہے ! قوموں کی تعمیر میں سب سے بڑا کردار تعلیم کا ہے، تعلیم کے ذریعے کسی بھی قوم کا دل ودماغ بنایا جاتا ہے،تمام کامیابیاں اور عزت و سر بلندی کا ابتدائی زینہ تعلیم ہی ہے۔
  تعلیم کے چند اجزاء ہیں:ــ
(۱)نصاب تعلیم موزوں ہو(۲)طریقٔہ تعلیم مؤثر ہو (۳) ذریعۂ تعلیم فطری ہو(۴)اساتذہ کا انتخاب صحیح ہو(۵)نظام تعلیم درست ہو۔
   اگر کسی قوم میں تعلیم ہی نہ ہو، تو وہ قوم کبھی پروان نہیں چڑھ سکتی ،طریقۂ تعلیم اگر غلط ہو تو تعلیم کا پورا اثر ظاہر نہیں ہوسکتا،اوراستاذ قابل نہ ہو، تو قابلیت کا دروازہ کھل ہی نہیں سکتا، اگر سب کچھ ہو اور نظام تعلیم درست نہ ہو، تو متوقع نتائج نہیں نکل سکتے۔
 علم دین سے دُوری کے نقصانات :--
(۱)ارتداد،(۲)فرقِ باطلہ کے جال میں پھنس جانا، (۳)آمدنی کا مشکوک ہوجانا، (۴) حقوق العباد میں کوتاہی، (۵)طہارت وپاکیزگی سے دُوری، (۶)اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوجانا، (۷)ضیاع ِوقت،(۸)غفلت ولاپرواہی، (۹)اولاد کی صحیح تربیت سے محرومی اور (۱۰)عقائد میں کمزوری پیداہوجانا۔
دینی اور دنیوی تعلیم کا تقابل :ــ
انگریزی تعلیم سے دین توحاصل ہواہی نہ تھا،دنیا بھی سب کو حاصل نہیں ہوتی؛ کیونکہ علم دنیا جب تک مکمل نہ ہو کسی مصرف کا نہیں رہتا اورعلم دین کا جو درجہ بھی حاصل ہوجائے وہ نافع ہے، آخرت کا تو نفع ہے ہی، دنیا کا بھی نفع اگر کوئ حاصل کرنا چاہے تو کرسکتاہے؛ مثلا: اگر کسی نے اذان ہی یاد کرلی اورکسی مسجد میں جاکر اذان دینے لگے اورمسجد کی صفائ وغیرہ کردے تو اسے روٹیاں آنے لگیں گی،  وہ بھوکا نہیں رہ سکتا،  یہ دینی تعلیم کا بہت ہی ادنی درجہ ہے،  جس کا دنیوی  فائدہ یہ ہے اورآخرت کافائدہ الگ رہا ـ(العلم والعلماء ص ۶۹ بحوالہ حسن العزیز ج ۲ ص ۸۰)

کوئی تبصرے نہیں