طلبئہ مدارس مثالی مدرس کیسے بنیں؟ قسط اول
طلبئہ مدارس مثالی مدرس کیسے بنیں؟
>قسط اول <
ازقلم: مفتی صدیق احمدبن مفتی شفیق الرحمن قاسمی
{باب ِاول}
خالق ِکائنات کا تعارف:-
اس رنگ برنگی دنیا میں قدرت خداوندی کا عجیب کرشمہ ہے کہ لاتعداد مخلوق کھلی فضا میں سانس لے رہی ہے؛نظام ِکائنات بھی بڑے منظّم انداز میںچل رہا ہے،چاند اپنی روشنی کے ساتھ نکلتاہے،سورج بھی اپنی شعائیں پھیلاتاہے؛ غرض دنیا کی تمام مخلوق اپنے اپنے مفوّضہ کام میں لگی ہوئی ہے؛یہ نظامِ کائنات اس بات کی طرف مشیر ہے کہ کوئی نہ کوئی ایسی ہستی ہے،جو اس نظام کو چلا رہی ہے؛ذراسا غور کرنے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ وہ ہستی کوئی اور نہیں؛ایک اللہ ہے، جو اس نظام کو چلا نے والااورتمام مخلوق کا پالنے والا ہے، وہی ہے، جس نے انسان کو اشرف المخلوقات کے لقب سے نوازا، اورانسان کی پیدائش کا مقصداپنی عبادت قرار دیا،اُنھیں دستورِحیات کی شکل میں قرآن مجید عطاکیا،تاکہ وہ اس کی روشنی میں زندگی گزارسکے،اور اِس دستور ِحیات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا،جوکہ رہتی دنیا تک تمام انسانیت کے لیے نمونہ ہے، قرآن مجید کی تشریح کے لیے ہمیں احادیث مبارکہ کا تحفہ دیا؛ اب انسان کو چاہیے کہ اپنے خالق کو پہچانے،اس کا حکم مانے، اوراس کی بھیجی ہوئی شریعت کے مطابق زندگی گزارے،لیکن جب انسان کومعلوم ہی نہیں ہوگا کہ شریعت کیاہے؟نبی اکرم ﷺ کا طریقہ کیا ہے؟تو وہ کیسے شریعت کے مطابق زندگی گزارسکے گا؟
خود کو پہچانیے :-
محترم ساتھیو!ایک بات ہمیشہ یاد رکھو کہ جو قوم اپنا تعارف بھول جائے،اپنی شناخت کھو بیٹھے ،اپنی پیدائش کے مقصد کو بھلا دے، وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی؛اسی طرح جوشخص اپنی زندگی کے لمحات کو قیمتی نہ بنائے اور وقت کی قدر نہ کرے، فلاح و کامرانی اس کے لیے ایک خواب بن کر رہ جائے گی؛نیز جوگزشتہ قوموں کے حالات نہ پڑھے،سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہرپہلو کو معلوم کر کے اپنی روز مرہ کی زندگی کواس کے سانچے میں نہ ڈھالے، وہ کماحقہ اپنی زندگی کے لمحات کو کار آمد نہیں بنا سکے گااور نہ ہی مشکلات سے نکل کر ، باطل کی عیاریوں اور مکاریوں کو سمجھ کر ان کا منہ توڑ جواب دےپائے گا؛اوریہ بھی طے ہے کہ جو حصولِ علم کی راہ میں اصول وضوابط کی رعایت نہیں کرے، وہ منٹوں کے سفر کو سالوں میں طے کر سکے گا ،اور اس کی یہ زندگی سفر کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہوجائے گی،کیوں کہ تجربات ومشاہدات اور اصول وضوابط کی روشنی میں سالوں کا سفر منٹوں میں طے ہوجاتا ہے،اس لیے ہم ان تمام باتوں کو ترتیب وار زیرِبحث لائیں گے۔
اولا ً ہمارے لیے ضروری ہے کہ : ہم اپنے آپ کو جانیں کہ آخر ہم کون ہیں؟اور ہماری پیدائش کا مقصد کیا ہے؟
ہم کون ہیں؟:-
ہم مسلمان ہیں،اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں،ہمارے لیے دستورِحیات قرآن مجید ہے؛اور امتِ محمدیہ ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری ہے کہ: قرآن مجید کو پڑھیں، سمجھیں،اور قرآنی احکام کواپنی عملی زندگی میں لائیں اور اس کے پیغام کو دوسروں تک پہنچائیں۔
ہماری پیدائش کے مقصد کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوںبیان فرمایا کہ: ہم نے جن وانس کومحض اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔
دین ِاسلام کیا ہے؟:-
’’اسلام‘‘ برحق آسمانی مذہب ہے، جنّ و انس کے لیے مکمل دستورِ حیات ہے،جو زندگی کے تمام معاملات میںانسان کو اچھائی اور برائی،نیکی وبدی اور حقوق و فرائض کا شعور بخشتے ہوئے امن وسلامتی اور انسانی ترقی کی ضمانت فراہم کرتا ہے،توحیدِ خالص اس کی بنیاد ہے،اور اخلاق ِحسنہ اس کی پہچان ہے،اسلام خالق و مخلوق کے تعلّق کو مضبوط کرتا ہے، اور اسلام ہمیں تقوی کا درس دیتا ہے، اسلام کی عمارت ان پانچ بنیادوں پر قائم ہے:
(۱)اعتقادات:آدمی کے عقائد درست ہونے چاہیے ،عقائدکا تعلق دل سے ہے، اگر عقائد درست ہوں گے، تو اعمال بھی درست ہوں گے،اس کی تین بنیادیں ہیں: [۱] مبدأ ، جس کا معنی ہے: ہم کہاں سے کہاںآئے؟ہماری اصل کیا ہے،اور ہم کس طرح دنیا میں ظاہر ہوئے؟ [۲]معاد،اس کا حاصل یہ ہے کہ ہم یہ عمر کیسے گزار کر جائیں گے اور کہاں؟[۳] معاش :یعنی اس آمد ورفت کے درمیان ہم زندگی کیسے گزاریں؟
(۲)عبادات:یعنی اللہ تعالی کو کس طرح یاد کیا جائے،عبادت کیسے کی جائے ؟ عبادت کا معنیٰ ہے: غایتِ تذلل یعنی معبود کے سامنے ایسی ذلت اختیار کر لینا، جس کے بعد ذلت کا کوئی درجہ باقی نہ رہے،اور اظہار ِذلت کا مطلب ہے کہ :عمل، قول، فعل، حال، چال اور ہر اعتبار سے آدمی اپنی پستی، اپنی احتیاج وحاجت مندی کا اظہار کرے، اسی کا نام عبادت ہے۔
(۳)اخلاقیات:اخلاق وعادات کی تربیت کی جائے ،انہیں سنواراجائے،اخلاق کو بلندی پر پہنچایا جائے، یہ ایسا قیمتی ہیرا ہے ،جو سخت سے سخت ترین دلوں کو بھی پگھلا کر موم بنا دیتا ہے،اور انھیں اپنا گرویدہ بننے پر مجبور کردیتا ہے۔
(۴)معاملات:ایک دوسرے سے ہم کس طرح معاملہ کریں؟معاملات میں نزاع نہ ہو، صلح اور باہمی مفاہمت سے مسائل کو حل کرنا،لین دین کس طرح ہو،امانت داری کے ساتھ ہر ایک صاحب حق کو ان کے حقوق دینا،کیوںکہ اگر امانت داری نہ ہو، تو دنیا میں فساد لازمی ہے۔
(۵)اجتماعیت:اپنی قومیت کو سنبھالناہے،یعنی اجتماعی حالت کو درست کرنا ہے کہ قوم میں اجتماعی طور پر ایک تنظیم ہو۔قوم ایک نظم کے تحت زندگی گزارے۔(خطبات طیبؒ ص ۱۷۱تا ۱۷۴)
Post a Comment